کشمیر میں انسانی المیہ جنم لینے سے قبل عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا
پاکستان کی کامیاب سفارتکاری‘ دنیا کشمیریوں کی حمایت پر کمربستہ‘ ٹرمپ کی بھارتی شدت پسند نظریے پر تنقید
وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے نوائے وقت اور دی نیشن کو پینل انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مودی کشمیر کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی ہار چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارے پاس ایک واضح نظریہ ہے، انکے حق خودارادیت اور انکی سالمیت کا ہر سطح پر احترام اور حمایت کرنا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی حمایت میں کھڑا رہے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پچپن برس بعد کشمیر پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے اکٹھا ہونا اپنے آپ میں ایک فتح ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرکے مودی نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی توجہ میں لاتے ہوئے بالواسطہ طور پر پاکستان پر احسان کیا ہے۔ شاید انہوں نے یہ فرض کیا کہ ہم اتنی مضبوطی سے کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کا دفاع نہیں کرسکیں گے۔ مگر مسئلہ کشمیر جس شدت اور زوردار طریقے سے عالمی منظر نامے پر نمایاں ہوا‘ اس سے مجھے لگتا ہے کہ بھارت نے غلطی کی ہے ۔ دریں اثناء ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر سے دباؤ ختم کرے۔ سید علی خامنہ ای نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ وادی کیلئے شفاف پالیسی اختیار کرے۔ پاکستان اور بھارت کو الجھائے رکھنے کیلئے برطانیہ نے جان بوجھ کر مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا۔ ایرانی میڈیا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے اور کرفیو کو ختم کرے۔ بھارت وادی میں بدترین کرفیو لگائے بیٹھا ہے۔ لوگوں کو ہراساں کئے جانے کے ساتھ ساتھ گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ ایرانی میڈیا کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ تنہا نہیں ہیں۔ ایران میں رہنے والوں کی بڑی تعداد کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ علاوہ ازیں بھارت میں مذہبی بنیادوں پر جاری قتل عام پر امریکی صدر نے بھی پاکستان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے کہا پاکستان بھارت کشیدگی کے پیچھے مذہب ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں مں ہندو انتہا پسند نظریے کے تحت مسلمانوں کو دبایا جا رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتاریوں، کرفیو اور پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کشمیری عوام اپنی آزادی اور بھارت کے خونیں پنجۂ استبداد سے نجات کیلئے پچھلے 70 سال سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسکی خاطر لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے۔ وہ کونسا ظلم اور جبر کا ضابطہ ہے جو سفاک بھارتی فورسز مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں پر نہیں آزما رہی۔ اب تو اس سفاک سپاہ کی تعداد 9 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے گویا ہر گھر کے دروازے پر اپنے ناپاک وجود کے ساتھ مہلک اور جدید اسلحہ سے مسلح فوجی کھڑا ہے۔ کشمیری ان فوجیوں کے ہاتھوں خود محفوظ ہیں‘ نہ انکی چادر اور چار دیواری کا تقدس موجود ہے اور نہ ہی کشمیر کی بیٹیوں کی آبرو ان ظالم فوجیوں کے ہاتھوں محفوظ ہے۔ کشمیری جان و مال اور آبروئوں کی قربانیوں کے ساتھ مسئلہ کشمیر عالمی برادری تک پہنچانے کیلئے بھی کوشاں رہے ہیں‘ وہ اپنے اوپر ہونیوالے مظالم اور بھارت کے انسانیت سوز قوانین اور اقدامات سے عالمی برادری کو ممکنہ حد تک آگاہ کرتے رہے مگر انکی شنوائی کم کم ہوئی اور وہ وسیع عالمی سطح پر اپنا کیس پیش کرنے یا دنیا کو اپنا مسئلہ سمجھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انکے حق میں عالمی سطح پر آوازیں بھی محدود رہیں مگر اب مودی حکومت نے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا‘ اس پر کشمیریوں کا شدید ردعمل سامنے آیا تو پوری وادی کو کرفیو کے بے رحم ہاتھوں میں دیدیا گیا۔ 5 اگست کے بعد کشمیری بنیادی انسانی حقوق تو کیا بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ گیس‘ بجلی‘ فون کے ساتھ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا جس سے کشمیریوں کے پوری دنیا سے رابطے کٹ گئے مگر کسی نہ کسی ذریعے سے وادی میں بھارتی مظالم دنیا پر آشکار ہو رہے ہیں۔ یہ سوال یقیناً عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے کہ آخر کشمیری کب تک بغیر خوراک‘ ادویات اور ضروریات زندگی کے گزار سکیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ڈنمارک‘ آئیوری کوسٹ‘ ناروے اور سویڈن کے وزرائے خارجہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں کشمیر کی ابتر صورتحال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے جس سے جنوبی ایشیاء میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے درست کہا اور عالمی برادری کی توجہ بروقت انسانی ایشو پر مبذول کرائی ہے ۔دنیا کو ایسے کسی المیے کے جنم لینے سے قبل اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
آج ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں کشمیر ایشو زیادہ زور دار طریقے اور شدت کے ساتھ دنیا میں نمایاں ہوا ہے۔ اس کا سبب بھارت کا احمقانہ اقدام ہے جس کے ذریعے وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا خبث باطن رکھتا تھا جو اظہر امن الشمس ہوچکا ہے۔ آج دنیا میں مسئلہ کشمیر جس وسیع پیمانے پر اجاگر اور عالمی برادری کی سمجھ میں آرہا ہے‘ ماضی میں کشمیریوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود ایسا نہیں ہوا تھا۔ آج بڑی تیزی سے عالمی رائے عامہ کشمیریوں کے حق میں ہموار ہورہی ہے۔ سلامتی کونسل میں بھارت کے ایماء پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ویٹو اختیار کا استعمال ہوتا رہا ہے مگر اب پاکستان کی سفارتی مہارت اور بھارت کی حماقت کے باعث دنیا پر مسئلہ کشمیر واضح ہونے پر بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سلامتی کونسل کے سارے ممالک پاکستان کے موقف اور مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر داخلہ سمیت بہت سے دانشور بھارت کے اس احمقانہ اقدام کو پاکستان اور کشمیریوں پر بالواسطہ احسان قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے اقدام پر اس قدر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے کہ بھارت کیلئے بادی النظر میں اس کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے جبکہ جس شدت اور جزئیات کے ساتھ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے‘ یہ اسکے حل کی طرف بڑی پیشرفت ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی کوششوں سے عالمی برادری کشمیر ایشو پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے ہم منصب عالمی لیڈروں سے مدلل انداز میں بات کرکے انکی حمایت حاصل کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ اپنے طور پر فعال اور متحرک ہیں‘ وزارت خارجہ اور اکثر ممالک میں سفیر بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے والا بھارت خود تنہائی کا شکار ہے۔ ایرانی روحانی پیشوا اور میڈیا کی طرف سے جس بھرپور انداز میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونے اور بھارت کو مظالم سے باز رہنے پر خبردار کیا گیا ہے‘ یہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی عمدہ مثال ہے۔ بھارت ایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ میں حصہ دار اور تہران سے افغانستان تک ریلوے لائن بھی بچھا رہا ہے مگر جب مسلمانوں پر مظالم کی بات ہوتی ہے تو وہ بھارت کو بھی اسرائیل کی طرح سفارتکاری کے نچلے درجے پر پہنچا دیتا ہے۔
پاکستان کے موقف پر قائل ہو کر صدر ٹرمپ بھارت کو سیکولر کے بجائے شدت پسند ریاست قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کی یہ شدت پسندی مسلمانوں‘ مسیحیوں اور سکھوں سمیت ہر اقلیت پر دہشت گردی بن کر گر رہی ہے۔ امریکہ کے مطابق مختلف بھارتی ریاستوں میں ہندو انتہاء پسند نظریے کے تحت مسلمانوں کو دبایا جارہا ہے۔ امریکہ نے یہ اعتراف شواہد سامنے آنے کے بعد ہی کیا ہے۔ اب اسکی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس بھیانک صورتحال سے نجات دلانے کیلئے کردار بھی ادا کرے۔ آج فی الواقع مقبوضہ وادی میں بدترین انسانی المیہ جنم لیتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ اسکے سامنے بند باندھنے کی پوزیشن میں ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر بدستور یواین او کے ایجنڈے پر ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ امریکہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیلئے مجبور کر سکتا ہے۔ اگر وہ اس طرف نہیں آتا اور یقیناً نہیں آئیگا تو امریکہ ماضی میں عراق‘ افغانستان اور اب ایران پر پابندیوں کی طرز پر بھارت پر بھی پابندیوں کا طریقہ اختیار کرے۔ پوری عالمی برادری امریکہ اور اقوام متحدہ کے ایسے مجوزہ اقدام کا کشمیریوں پر بھارت کے بہیمانہ مظالم کے پیش نظر زیادہ جوش و جذبے سے ساتھ دیگی۔