مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت پاکستان عالمی سطح پر یہ مسئلہ اٹھا کر دنیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے خاصے متحرک ہیں۔ وزیر خارجہ بھی اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی عمران خان مسئلہ کشمیر اور بھارتی افواج کے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بھارتی حکومت کے ظالمانہ فیصلے اور قابض بھارتی افواج کی بربریت نے وادی کو خون میں نہلا دیا ہے۔ گرفتاریاں، نظر بندی، مار کٹائی، خوف و ہراس اور خاموشی نے جنت نظیر وادی کشمیر کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ رابطے کے ذرائع، معلومات کے ذرائع بند کر دیے گئے ہیں۔ کرفیو نافذ ہے، ہر گذرتے دن کے ساتھ زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ کشمیر کے رہنے والے دہائیوں سے بھارتی افواج کے مظالم کو برداشت کرتے آ رہے ہیں لیکن ایسی سختی اور شدت پسندی وہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے۔ ہندو انتہا پسندوں پر مشتمل دہشت گرد اور قصاب نریندر مودی کی سربراہی میں قائم بھارتی حکومت نے قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ وادی کے رہنے والوں کو بھی انجانے خوف اور بدترین غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایسی بدترین تعصب پسندی ہے کہ کشمیر کے بھارت نواز حکمرانوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں وہ بھی سراپا احتجاج ہیں بلکہ نظر بندیاں اور گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ دنیا کو نظر آ رہا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت برسوں سے جاری نسل کشی کو اب باقاعدہ طور پر منظم انداز میں شروع کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ نسل کشی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے تو یہ غلط ہو گا البتہ یہ ماننا پڑے گا اگر اس مرتبہ بھارتی حکومت نے کوئی کارروائی شروع کی تو یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی ہو گی جس کا مقصد صرف وادی سے مسلمانوں کا خاتمہ ہو گا۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان گذشتہ کئی روز سے عالمی طاقتوں اور دنیا کی توجہ اس ممکنہ نسل کشی کی طرف دلا رہے ہیں۔ اس اہم ترین مسئلے پر انہوں نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی بات کی ہے۔ امریکہ خود ان دنوں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں الجھا ہوا ہے ویسے بھی اس سے کسی اچھے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ گزشتہ روز نوائے وقت کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ خبر کے مطابق امریکہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کو بھارت کا داخلہ معاملہ قرار دے رہا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کو مذہب کے ساتھ جوڑا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کشمیر میں گرفتاریوں، پابندیوں اور کرفیو پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس خبر کا سب سے اہم، خطرناک اور تباہ کن پہلو امریکہ کی طرف سے کشمیر کی حیثیت کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دینا ہے۔ اس بیان سے امریکہ کا بھارت کی طرف جھکاؤ ظاہر اور ثابت ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر امریکہ نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔ یہ بیان نظر سے گذرا تو امام صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کے الفاظ یاد گئے وہ فرمایا کرتے تھے کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت شیطانی ثلاثہ ہے۔ ان کا یہ موقف ہر دور میں اپنی اہمیت ثابت کرتا رہے گا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے دونوں ممالک میں کشیدگی کو مذہب کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند نظریے کے تحت مسلمانوں کو دبایا جا رہا ہے۔ جب ٹرمپ یہ مان رہے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کو ہندو انتہا پسند نظریے کے تحت دبایا جا رہا ہے تو پھر وہ کشمیر کو بھارت کا داخلی مسئلہ کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے، وہ بھارت کا داخلی یا اندرونی مسئلہ کسی طور نہیں ہو سکتا۔ امریکہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر انصاف اور انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حق کا ساتھ دے ورنہ یہ بات ہمیشہ کے لئے تصدیق شدہ ہو جائے گی کہ وہ شیطانی ثلاثہ کا سربراہ ہے اور کشمیر میں ہونے والے مظالم میں برابر کا شریک ہے۔ اگر بھارت کشمیر میں منظم نسل کشی کا بھیانک منصوبہ شروع کرتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اسے امریکہ کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ کشمیریوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں، وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں، انہیں آزادی کی خواہش کی اتنی سخت سزا دی جا رہی ہے کہ گھروں میں
محصور کر دیا گیا ہے۔ ادویات کی فراہمی محدود کر دی گئی ہے، آوازیں دبانے کے لیے تمام وسائل خرچ کیے جا رہے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ اگر امن کے علمبرداروں نے اس اہم اور نازک موقع پر اپنا کردار ادا نہ کیا تو دونوں ملکوں کے مابین بات کشیدگی سے آگے بڑھے گی اور پھر بات بڑھتے بڑھتے جنگ تک گئی تو تباہ کن اثرات سب کو بھگتنا ہوں گے۔ پاکستان نے اب تک تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارت کاری، بات چیت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کے حل پر زور دیا ہے اگر بھارت باز نہ آیا تو پھر دنیا کو بدترین حالات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ حکومت یہ جان چکی ہے کہ بھارت سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں اس فہرست میں امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے یہ ممکن نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان کے موقف کی تائید کرے یا غیر جانبدار ہو کر بات کرے گا یا پھر وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کے حل پر زور دے گا وہ بھارت کے موقف کی حمایت کرے گا۔ ہمیں تیار رہنا چاہیے اور یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اگر بھارت کی طرف سے نسل کشی یا کوئی بھی جارحانہ کارروائی کی گئی تو اس کا جواب تن تنہا دینا پڑے گا۔ بھارت کے ساتھ جنگ میں کوئی پاکستان کا ساتھ نہیں دے گا۔ سب کے تجارتی مقاصد اور مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہیں یوں تمام ممالک اس کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کو مشکل ترین حالات میں تن تنہا لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ دنیا سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے، یہ کاروبار کی دنیا ہے، یہ مفادات کی دنیا ہے، اسے اپنی سرمایہ کاری لاکھوں کشمیریوں کی زندگیوں سے زیادہ عزیز ہے۔
بھارت نسل کشی کی بنیاد رکھ چکا ہے، کرفیو، گرفتاریوں اور نظر بندیوں پر دنیا بھر میں پاکستانیوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کے بعد بھی بھارت کے موقف میں نرمی نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے فیصلے کر چکے ہیں اب ہم نے اپنے فیصلے کرنے ہیں۔ دعا ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کے بہتر مستقبل کے وسیع تر مفاد اور اس مسئلے پر پاکستان کے دیرینہ موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی شہ رگ بچانے اور اسے ازلی دشمن سے چھڑانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024