ہندوؤں کے سامنے جو آتا گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے: حبیب اﷲ
ملتان (سماجی رپورٹر) آج پاکستان کو بنے ہوئے 72 سال گزر چکے ہیں مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب میری عمر 9 سال تھی تو ہندوستان کی تقسیم کا عمل ہوا‘ ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان خیالات کا اظہار ضلع ہنک تحصیل سونی پت کے گاؤں چھجارا والی گڑھی سے ہجرت کر کے آنے والے حبیب اﷲ چوہدری نے ’ہم نے پاکستان بنتے دیکھا‘ میں کیا انہوں نے کہا کہ آزادی کی تحریک اپنے جو بن پر تھی ہر مسلمان بچہ بچہ کی زبان پر تھا بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان‘ یہ نعرہ سنتے ہی ہندوؤں اور سکھوں کا ہجوم ہاتھوں میں گنڈا سے‘ کلہاڑیوں ٹوکے اٹھائے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے اور جو بھی سامنے آتا انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیتے۔ ہمارے گاؤں کا ایک پڑھا لکھا انتہائی خوبصورت نوجوان تراب الدین جس کی عمر اس وقت 18 سال تھی۔ آزادی کا ملی نغمہ گا رہا تھا تو ہندو فوجی اسے اٹھا کر لے گئے۔ اس کی آنکھیں نکال لیں اور اس قدر تشدد کیا کہ وہ بے ہوش ہو گیا تشدد کے دوران بھی اس کی زبان پر لے کر رہیں گے پاکستان کا نعرہ تھا یوں اس نوجوان نے اپنی زبان پر پاکستان کا نام پکارتے پکارتے جان دے دی۔ آزادی کے دوران کون سا ایسا گھر ہو گا جہاں پر ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگر گوشہ بھائی والد شہید نہ ہوئے آخر گاؤں کے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تو 1200 سے زائد افراد کا قافلہ گھروں سے روانہ ہوا کوئی 10 کلومیٹر کا پیدل سفر کیا تھا کہ 20 افراد پر مشتمل ہندوؤں کا ایک گروہ حملہ آور ہو گیا اور بیسیوں افراد کو شہید کر دیا جبکہ 100 سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے اپنے ہاتھوں سے مسلمانوں کو اپنے پیاروں کی نعشیں دریا کے سپرد کرتے دیکھا۔ آج جب وہ لوگ یاد آتے ہیں تو رات کو نیند نہیں آتی‘ بالآخر کافی مصائب برداشت کرنے کے بعد واہگہ باڈر لاہور اور پھر ملتان ریلوے سٹیشن پہنچے جہاں پر تین دن کیمپ میں رہے اور وہاں سے تحصیل کوٹ ادو پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان متحد ہونے کی بجائے اپنی ذات پات برادری اور فرقوں میں بٹ گئے اور قیام پاکستان کے وقت کا نعرہ بھول گئے۔