اپنی آمد کے تین ماہ بعد بالآخرہماری حکومت دہشت گردی اور کنٹرول لائن پر پائی جانے والی کشیدگی بارے دوٹوک مﺅقف اختیار کرنے اور اُسکے خدوخال واضح کرنے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
اندرونی اور بیرونی محاذوں پر صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ80 دن گزرجانے کے باوجود نہ تو وزیرِ خارجہ مقرر کیا جا سکا ہے اور نہ ہی امریکہ کیلئے سفیر کا انتخاب عمل میں لایا جاسکا ہے۔ اسکے باعث امریکی وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورے سے وہ ثمرات حاصل نہیں کیے جاسکے جو کہ حاصل ہونے چاہئیں تھے۔ ایسے لگا رہا تھا جیسے جان کیری ہمارے لیے خیر سگالی کا پیغام لے کر آئے ہوں اور جواب میں ہم نے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اس کیلئے کسی سفیر یا وزیرِ خارجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بہرحال ہمارے ہاں دہشت گردی کی جنگ کو کبھی دوسروں کی اورکبھی اپنی جنگ قرار دے کر طویل عرصے تک ابہام پیدا کیا جاتا رہا ہے کیونکہ ٹھوس دلائل کے بغیر ہمارا مﺅقف واضح نہیں تھا ۔ ہم ایک مخمصے کا شکار تھے۔ اسکی وجہ یہ تھی ایک مخصوص طبقہ اس بات کے پروپیگنڈے میں مصروف تھا کہ یہ دہشت گرد ہمارا حصہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہوچکے ہیں ان کے ساتھ ڈائیلاگ ہونے چاہئیں۔ان کو مذاکرات کے ذریعے سیدھے راستے پر لایا جاسکتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے دوران دہشت گرد ہمارے ہسپتالوں، تعلیمی درسگاہوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے رہے اور یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ کسی قسم کے ڈائیلاگ نہیں چاہتے۔ وہ بات چیت کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی ابہام کا شکار رہے۔ دراصل اس ابہام کی عمر کافی لمبی ہے۔ یہ داستان روس کی افغانستان آمد سے لیکر 9/11 تک پھیلی ہوئی ہے۔ کسی قسم کی کنفیوژن سے چھٹکارا جلدی ممکن نہیں ہوتا۔ قوموں کو کنفیوژن سے صرف لیڈر نکالتے ہیں۔ ہمارے خطے میں لیڈروں کی عمریں لمبی نہیں تھیں۔ ان کے بعد آنیوالے لیڈروں کے اقتدار کو استحکام نہیں مل سکا یا پھر اُنھیں اپنی مدت پوری کرنے کی مہلت نہیں دی گئی۔ اس سے غلط فہمیاں بڑھتی چلی گئیں اور ہم کسی واضح مﺅقف تک پہنچنے میں ناکام ہوتے رہے۔ بہرحال اب وزیرِ داخلہ نے جو پریس کانفرنس کی ہے اُسے اس حوالے سے بہت اہم قرار دیاجا سکتا ہے کہ اس سے ہمیں اُس ابہام کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو دہشت گردی کے حوالے سے حکومتی اداروں میں پایا جاتا تھا۔ ہماری نظر میں یہ ایک بڑی اہم پیش رفت ہے۔ اداروں کی آپس میں کوآرڈینیشن سے بڑے مثبت نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
وزیرِ داخلہ کے بیان کے مطابق حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس میں انٹیلی جنس کے تمام افسران مل کر کام کرینگے۔ اس سیکرٹریٹ کا تمام صوبوں سے رابطہ ہوگا اور اس ادارے کو تمام جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا جائیگا۔ حکومت کو اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے انٹیلی جنس ادروں کے دائرہ کار کو بڑھانا اور ان کی کارکردگی کو بہتر خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
وزیرِ داخلہ کے بقول ہمارے حکمران گزشتہ 13 برسوں کے دوران کوئی سیکورٹی پالیسی بنا ہی نہیں سکے۔ اس وجہ سے بھی مو¿ثر طریقے سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ نئی سیکورٹی پالیسی کو دوحصوں میں تشکیل دیا جارہا ہے جو داخلی اورخارجی امور کی منصوبہ بندی پر مشتمل ہوگی۔ وزیرِ داخلہ کی پریس کانفرنس سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ حکومت سیکورٹی پالیسی تشکیل دینے کے سلسلے میں کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ اس نے اس بارے میں اپنا ہوم ورک بھی مکمل کر لیا ہے۔ اب صرف تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس طلب کرنا باقی رہ گیا ہے اسکے بعد اتفاق رائے حاصل کرنے کا کام بھی کر لیاجائیگا۔ ہمارے ہاں کسی مسئلے پر اتفاق رائے کا حصول سب سے اہم مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ کسی قومی مسئلے پر تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کا اعتماد حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے۔
ملٹری اکیڈمی کاکول میں یوم آزادی کے موقع پر جنرل اشفاق کیانی نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے سامنے جُھک جانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کیلئے مل کر ٹھوس حکمتِ عملی بنانی چاہیے۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاک فوج کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس جنگ کو جیتنے کی ایک ہی صورت ہے ،ہمیں مل کر ایک حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اور اس پر متفق ہونا پڑے گا تاکہ ہماری سوچ میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہے۔کیونکہ ہمارے قومی نقطئہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے اس لیے ہر طرف سے اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ پہلے وزیرداخلہ اور اب جنرل اشفاق کیانی کی طرف سے بھی یہی بات کہی جا رہی ہے۔ جس طرح وزیرداخلہ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ فوج اور حکومت کے درمیان نئی سیکورٹی پالیسی کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اسی طرح قومی رائے عامہ کی تقسیم اور ابہام کا خاتمہ کرنا بھی فوجی اور سیاسی راہنماﺅں کی ذمہ داری ہے۔
ہمارے خیال میں حکومت اورتمام ریاستی ادارے اگر عوام کیساتھ مل کریہ جنگ لڑیں گے تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور اُن میں یہ احساس اُجاگر کرنا ہے کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ اگرچہ یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہے لیکن اب جبکہ یہ لڑائی ہمارے شہروں ، گلیوں اوربازاروں میں لڑی جا رہی ہے اس لیے اب یہ ہماری جنگ ہے اور ہمیں متحد ہو کر اس کا سامنا کرنا ہے یہ سوچ پیدا کرکے دہشت گردی کا راستہ بھی رُوکا جا سکے گا اور اس کا خاتمے کو بھی ممکن بنایا جاسکے گا۔ ایسے موقع پر جب ہماری حکومت دہشت گردی کیخلاف موثر حکمتِ عملی تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر اشتعال انگیر کارروائیاں کر رہا ہے۔ انڈیا میں اس وقت انتخابی ماحول چل رہا ہے۔ جس میں ایسے ایشوز کی ضرورت پڑتی ہے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انڈین عوام کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ آبادی میں بے حد اضافہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر صورت اختیار کر گیا ہے لیکن ہمارے خیال میں اس وقت انڈیا کو غربت سے بھی ایک بڑا چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے لیڈر شپ کا فقدان۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انڈیا کی وہ سیاسی جماعت جس کی قیادت کبھی واجپائی جیسے پڑھے لکھے لیڈر کیا کرتے تھے اُسی جماعت نے آنیوالے انتخابات میں ایک ایسے شخص کو وزیراعظم نامزد کیا ہے جو ریاستی دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔ کہنے کو تو منموہن سنگھ بھی پڑھے لکھے ہیں لیکن اُنکی حکومت بہت جلد انتہا پسندوں کے اشتعال کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
میاں نوازشریف انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی یا یوں کہنا چاہیے کہ ہمیشہ سے بھارت کیساتھ بہتر تعلقات پر زور دیتے رہے ہیں۔ اسکے جواب میں انڈیا اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں سے پُرامن مذکرات کے ماحول کو سبوتاژ کرنے میں لگا ہوا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ انڈین حکومت انتہا پسند اپوزیشن کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہو چکی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ وہاں اس وقت کوئی لیڈر نہیں ہے کیونکہ بڑا لیڈر ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتا ہے ڈکٹیٹر جنگ کو ترجیح دیتے ہیں اور انتہاپسند عوام میں اشتعال پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں کنٹرول لائن کے معمول کے واقعات کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اسکے نتیجے میں بھارت کی بے بس حکومت اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ سب تماشہ صرف اس لیے کھیلا جا رہا ہے تاکہ منموہن سنگھ اور نوازشریف کی متوقع ملاقات کو رُوکا جا سکے۔
انتہا پسندہندﺅں کے پاس الیکشن جیتنے کا ایک ہی حربہ ہے کہ عوام کی توجہ مسائل اور غربت سے ہٹانے کیلئے جنگی ماحول بنا دیا جائے۔ انڈین الیکٹرانک میڈیا بھی انتہاپسند وں کے ہاتھوں میںہے اس لیے پاکستانی وزیر اطلاعات کا بیان انڈیا کی عوام تک پہنچ نہیں سکتا۔ ہمارے خیال میں پرویز رشید نے یہ کہ کر بات ختم کر دی ہے کہ بھاتی انتہاپسند جنگی ماحول بنانے کیساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ مسئلہ 28 مئی 1999 کو حل ہو چکا ہے۔ یقینا اُن کا واضح اشارہ ایٹمی دھماکوں کی طرف تھا اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ تو اب ممکن ہی نہیں ہے اس لیے خواہ مخواہ کی اشتعال انگیزی سے بھی گریز کرنا چاہیے یہ جمہوری حکومتوں کاطرز عمل ہوتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024