ہماری شامت اعمال کے چند ماہ نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ڈینگی نے ایک بار پھر اپنی آمد اور موجودگی کا احساس دلا کر عوام کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ گزشتہ برس ڈینگی سے ہونے والی ہلاکتیں آج بھی اس بات کا احساس دلا رہی ہیں کہ کچھ تو ہے کہ ڈینگی جانے کا نام نہیں لے رہا۔
ڈینگی بلاشبہ ہلاکت اور عذاب الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ بعض عقل کے اندھے اس کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر ڈالتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک پنجاب حکومت اگر ڈینگی کے خاتمے کا بروقت توڑ تلاش کر لیتی، ڈینگی کی ادویات اور سپرے وغیرہ میں ملاوٹ اور کرپشن نہ ہوتی تو نقصانات سے کافی حد تک بچا جا سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ رائے رکھنے والے کسی حد تک ٹھیک ہوں مگر ایک بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ کوئی قوم جب مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی قیود سے آزاد ہونے کی کوشش کرتی ہے تو خالق کائنات اسے جھنجھوڑنا شروع کر دیتا ہے، کبھی کرپٹ اور ظالم حکمران بھیج کے، کبھی زلزلوں اور سیلابوں کی آفتیں بھیج کر اور کبھی ڈینگی بھیج کر، میرا رب اپنی قدرت کے چند جلوے دکھا کر وارننگ دیتا ہے کہ اے بھٹک جانے والی قوم اب بھی وقت ہے راہ راست پر آ جا، ہیرا پھیریوں سے تائب ہو جا، میڈیکل سائنس کچھ بھی کہے، سیانے جو چاہے کہتے رہیں مگر یہ سچ کہ زلزلوں، سیلابوں اور طوفانوں کی طرح ڈینگی بھی ایک آسمانی آفت ہے جو پاکستانیوں کو خدا اور موت یاد دلانے کیلئے نازل کی جا رہی ہے۔
آج دنیا کی وہ کونسی برائی اور عیب ہے جو ہمارے اندر موجود نہیں۔ ہم شراب پیتے، جوا کھیلتے اور جسموں کا کاروبار کر رہے ہیں، بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے، نمائش و عریانی کا دور دورہ ہے، گھر گھر مجرے اور ڈانس ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل مادر پدر آزاد ہونا چاہ رہی ہے، حکمران صرف اپنے گھروں کو بھرنے میں مصروف ہیں، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، مہنگائی انتہا کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری خودکشیا ں کروا رہی ہیں۔ انصاف اور قانون کی جھلک تک دکھائی نہیں دے رہی، گھروں کے چولہے ٹھنڈے اور ذخیرہ اندزوں کی پانچوں گھی میں ہیں۔ حکومتیں اپنی کرپشن چھپانے میں مصروف ہیں انہیں بلکتی سسکتی عوام کی پرواہ نہیں، قانون کے محافظ قانون ہی کو روندے چلے جا رہے ہیں، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، صحافیوں اور اہل قلم کوحکومتوں کو جھنجھوڑنے والا طبقہ تصور کیا جاتا رہا ہے مگر اہل صحافت کی اکثریت آج خود بہتی گنگا میں اشنان کرنے میں مصروف ہو چکی ہوئی ہے۔معاشرے میں پھیلی ہوئی تقریباً ہر برائی پولیس اور صحافت کی بعض کالی بھیڑوں کی ناک تلے رنگ جما رہی ہے۔ قانون اور صحافت کے چند محافظ چند ٹکوں کی خاطر گونگے بہرے اور اندھے بن چکے ہیںصاحب جبکہ دو ستار اپنے فرائض بھلا بیٹھے ہیں۔
ڈینگی ایک بار پھر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور لگتا ہے کہ اس کی تیاری کافی حد تک ہو بھی چکی۔ اس صورتحال نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ڈینگی کی آمد کا ادراک کرکے وہ گزشتہ سال کی کوتاہیوں کو سامنے رکھنے ہوئے ڈینگی کے خلاف لڑنے اور جیتنے کیلئے زبردست تیاری کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ گلی کوچوں میں پھیل جائیں اور ڈینگی کے تدارک اور خاتمے کیلئے نہ صرف خود جنگ لڑیں بلکہ عام لوگوں کو بھی اپنی جنگ کا حصہ بنائیں اور جو لوگ اس اجتماعی جنگ میں تعاون نہیں کرتے انہیں قانون کی طاقت سے جنگ کا حصہ بننے پر مجبور کیا جائے کیونکہ اس ضمن میں دو اہم تلخ حقیقتیں سامنے آئی ہیں۔ (اولاً) جناب شہباز شریف کے چند چہیتے ہی میدان عمل میں اترے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں دیگر چہیتوں کو گویا سانپ سونگھ گیا ہوا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں سبزہ زار ہی کو لیجئے یہاں ڈینگی کافی تیزی کے ساتھ پنپ رہا ہے مگر کوئی بھی چہیتا یا سرکاری افسر و اہلکار ڈینگی کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں نظر نہیں آ رہا۔ (دوئم) بے شمار ان پڑھ، جاہل اور بے حس لوگ اپنے گھروں کے سامنے سے کھڑا ہوا پانی ہٹانا اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور کسی کے سمجھانے پر مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ان بے حس لوگوں کیلئے کوئی خصوصی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی غفلت اور ہٹ دھرمی کی سزا دیگر لوگوں کو نہیں ملنی چاہیے۔ آئیے ڈینگی کے خلاف جنگ کا حصہ بنیں۔پاکستان زندہ باد .... پاکستان کھپے
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38