عمران کا مستقبل روشن ہے۔ اسے لوگ چاہتے ہیں اس میں عورتیں بھی آتی ہیں۔ یہ پرانی بات ہے اور نئی بھی ہے۔ نوجوان نسل تو چاہتی ہی عمران کو ہے۔ بھٹو کے ساتھ قوم نے عشق کیا مگر اس نے خود اپنے ساتھ جو عشق کیا‘ وہ ناکام ہوا۔ عشق تو عوام کا بھی ناکام ہوا۔ جس دن کسی خوشامدی کرپٹ جیالے نے اسے قائد عوام کہا، عوام مایوس ہو گئے۔ قائداعظم کے مقابلے میں کوئی بات مناسب ہی نہیں قائداعظم ثانی کا نعرہ نوازشریف کیلئے لگانے والے قیادت کی توہین کے مرتکب ہوئے۔ بھٹو لیڈر تھا مگر حکمرانی کی خواہش اسے ہڑپ کر گئی۔
بھٹو کیلئے ہوا چلی تھی۔ عمران خان کیلئے بھی چلنے والی ہے مگر یہ تو دیکھیں کہ اس ہوا کو آندھی کون بناتا ہے۔ آندھی میں چلنا مشکل ہوتا ہے اور چیزیں نجانے کہاں کہاں اڑی اڑی پھرتی ہیں۔ عمران خان کو بہت باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ اس کا خیال رکھنے والے اس کا جو حال کرنے والے ہیں۔ مستقبل اور ماضی دونوں بے حال ہو جائیں گے۔ وہ جو اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مسافر ہیں ہمسفر نہیں۔
اب لوگوں کو کسی سیاستدان کی باتیں اچھی نہیں لگتیں مگر عمران خان کو وہ سننا چاہتے ہیں وہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بات کرتا ہے مگر عمران کو کوئی بتانے والا ہی نہیں۔ شاید اس نے گجر خان میں پروفیسر رفیق اختر کے پاس جانا کم کر دیا ہے۔ وہ کبھی لاہور میں سرفراز شاہ سے بھی مل لے۔ اور بھی دو ایک بندے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ اکیلا ہو۔ حفیظ اللہ نیازی بھی ساتھ نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر آدمی اس کے ساتھ ہے۔ یہ درست ہے جو اس کے ساتھ لگے گا قابل ذکر بن جائے گا۔ مگر ابھی ایسا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔
کرچی کرچی کراچی کیلئے وہ بہت بے چین ہے مگر یہ کیا بات ہے کہ مجھے گورنر سندھ بنا دو تو تین چار مہینے میں حالات ٹھیک کر دوں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اب مہینوں کی بات نہیں‘ دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ لوگ صبر کے اجر سے بھی بیزار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسے کون گورنر سندھ بنائے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خود اسے وزیراعظم بنائیں تو پھر صدر پاکستان کون ہو گا۔ ہمارے وزیراعظم سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ صدر فوجی ہوں تو وہ بھی ایک جیسے۔ اگر ”جمہوری“ ہوں تو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ صدر اسحاق یا صدر فضل الٰہی چودھری جیسے صدر رفیق تارڑ البتہ بہت اچھے انسان ہیں۔ تاحیات والے۔ ان سے بھی اختلاف ہے مگر ان کا اعتراف بھی ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ صدر زرداری جیسا آدمی نہ فوجیوں میں ہے اور نہ ”جمہوریوں“ میں ہے وہ اپنی قسم کے والا صدر پاکستان ہے۔ کوئی ان کی سیاست کو پسند کرے یا نہ کرے مگر یہ سیاست پاکستانی سیاست ہے۔ سارے سیاستدان ایک جیسے ہیں کامیابی میں بھی اور ناکامی میں بھی۔ مگر سیاستدان زرداری بھی ایک مختلف کردار ہے۔ عمران خاں بھی ابھی پاکستانی سیاستدانوں جیسا نہیں۔ ابھی وہ اقتدار میں نہیں آیا۔ اسلئے اچھا سیاستدان ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ اس میں لیڈر ہونے کے امکانات بھی ہیں۔ اس کے کچھ اقدامات، خیالات اور بیانات لوگوں کو حیران کرتے ہیں اور کبھی کبھی پریشان بھی کر دیتے ہیں۔
وہ اچھا بولنے لگا ہے مگر اس نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ پرویز رشید کو پھر بیان دینے کا موقع مل گیا ہے جبکہ یہ بیان نوازشریف کے خلاف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران سے کوئی ڈر نوازشریف کو لگا ہوا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار چاہتے کیا ہیں۔ چودھری نثار نے بھی نوازشریف کے خلاف زبان کھلوانے کی کامیاب کوشش کر رکھی ہے۔ آج کل وہ نوازشریف سے خفا ہے۔ شاید وہ خود کچھ کہے جو مخالفین نہیں کہہ سکتے۔ پرویز رشید نے عمران کے خلاف بیان دے کے نوازشریف کا تو کیا فائدہ کرنا تھا۔ عمران کا فائدہ کر دیا ہے۔ جو لوگ اس سے ناراض ہو رہے تھے۔ انہیں یاد آ گیا ہے کہ عمران خان نظریہ پاکستان سے وابستہ ہے اور بھارت کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ سیاستدان عمران کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا جانے لگا ہے۔ اس پسندیدگی میں بھارتی اداکارائیں بھی شامل ہیں جو پاکستان دشمن بھارتیوں کو پسند نہیں۔ پاکستان میں بھی پاکستان دشمن حلقے عمران کو پسند نہیں کرتے۔ ہر بات میں اپنی پارٹی سیاست اور بیان بازی اچھی نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ گارڈن کالج میں پرویز رشید انقلابی تھا۔ اب بھی شاید ہو۔ اسے نوازشریف کی صحبت سے فرصت ملے تو کبھی کبھی شہباز شریف کے پاس بھی بیٹھا کرے۔ چودھری پرویز الٰہی کی ساتھی ماروی میمن کے تحریک انصاف میں جانے کو بے انصافی سمجھتے ہیں۔ اس کی تائید میں بھی پرویز رشید کا بیان آنا چاہئے۔
شوکت خانم ہسپتال میں فنڈریزنگ افطاری میں کسی نے کہا کہ عمران کو ایسے گورنر لگانے چاہئیں جو حضرت عمرؓ نے لگائے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ ایسے گورنر پاکستان میں تو نہیں ملیں گے۔ شاید اسی لئے اپنے آپ کو اس نے گورنر کیلئے پیش کر دیا ہے۔ کراچی کے حالات صرف گورنر بن کر تو ٹھیک نہیں کئے جا سکتے۔ عمران کو اس کی کیا ضرورت ہے۔ اسے گورنر ہی بننا ہے تو گورنر جنرل پاکستان بنے۔ قائداعظم پہلے گورنر جنرل تھے۔ کوئی انہیں سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ ہر کوئی انہیں قائداعظم کہتا ہے قائد یعنی لیڈر‘ حکمران سے بڑا ہوتا ہے۔ لوگ عمران کو لیڈر سمجھتے ہیں۔ وہ حکمران بن کے بھی حکمران نہ بنے۔ شوکت خانم کے خواجہ نذیرنے بتایا کہ تقریباً آٹھ کروڑ روپے افطاری میں اکٹھے ہوئے۔ یہ پیسے لوگوں نے عمران خان کو دیئے۔ گورنر سندھ کو نہیں دیئے۔ شوکت خانم کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان بھی ہسپتال کے گورنر بورڈ کا ممبر ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔ گورنر سندھ ہونا انہیں قبول نہ ہو گا۔ انہوں نے نوائے وقت میں کراچی میں شوکت خانم کی نوید بھی سنائی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ گورنر سندھ عشرت العباد کا کیا بنے گا۔ وہ پاکستان کا سب سے طویل العمر گورنر ہے۔ اس نے وہ زمانہ بھی گورنری میں شامل کر لیا ہے جو اس نے استعفیٰ دے کے دبئی میں گزارا۔ وہاں صدر زرداری سے ملاقات اس نے گورنر سندھ کے طور پر کی تھی۔ عشرت العباد حقوق العباد کا قائل ہی نہیں۔ اسے کراچی میں مقتولین کے لواحقین کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ اس کے دل میں ہر وقت الطاف بھائی کے فون کی گھنٹیاں کھڑکتی رہتی ہیں۔ کیا الطاف بھائی نے عمران کو بھی فون کیا ہے۔ لوگ عمران کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی کا دیا ہوا تاج سر پر رکھنا چاہتا ہے۔
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی
بھٹو کیلئے ہوا چلی تھی۔ عمران خان کیلئے بھی چلنے والی ہے مگر یہ تو دیکھیں کہ اس ہوا کو آندھی کون بناتا ہے۔ آندھی میں چلنا مشکل ہوتا ہے اور چیزیں نجانے کہاں کہاں اڑی اڑی پھرتی ہیں۔ عمران خان کو بہت باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ اس کا خیال رکھنے والے اس کا جو حال کرنے والے ہیں۔ مستقبل اور ماضی دونوں بے حال ہو جائیں گے۔ وہ جو اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مسافر ہیں ہمسفر نہیں۔
اب لوگوں کو کسی سیاستدان کی باتیں اچھی نہیں لگتیں مگر عمران خان کو وہ سننا چاہتے ہیں وہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بات کرتا ہے مگر عمران کو کوئی بتانے والا ہی نہیں۔ شاید اس نے گجر خان میں پروفیسر رفیق اختر کے پاس جانا کم کر دیا ہے۔ وہ کبھی لاہور میں سرفراز شاہ سے بھی مل لے۔ اور بھی دو ایک بندے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ اکیلا ہو۔ حفیظ اللہ نیازی بھی ساتھ نہ ہو۔ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر آدمی اس کے ساتھ ہے۔ یہ درست ہے جو اس کے ساتھ لگے گا قابل ذکر بن جائے گا۔ مگر ابھی ایسا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔
کرچی کرچی کراچی کیلئے وہ بہت بے چین ہے مگر یہ کیا بات ہے کہ مجھے گورنر سندھ بنا دو تو تین چار مہینے میں حالات ٹھیک کر دوں گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اب مہینوں کی بات نہیں‘ دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ لوگ صبر کے اجر سے بھی بیزار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اسے کون گورنر سندھ بنائے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خود اسے وزیراعظم بنائیں تو پھر صدر پاکستان کون ہو گا۔ ہمارے وزیراعظم سارے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ صدر فوجی ہوں تو وہ بھی ایک جیسے۔ اگر ”جمہوری“ ہوں تو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ صدر اسحاق یا صدر فضل الٰہی چودھری جیسے صدر رفیق تارڑ البتہ بہت اچھے انسان ہیں۔ تاحیات والے۔ ان سے بھی اختلاف ہے مگر ان کا اعتراف بھی ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ صدر زرداری جیسا آدمی نہ فوجیوں میں ہے اور نہ ”جمہوریوں“ میں ہے وہ اپنی قسم کے والا صدر پاکستان ہے۔ کوئی ان کی سیاست کو پسند کرے یا نہ کرے مگر یہ سیاست پاکستانی سیاست ہے۔ سارے سیاستدان ایک جیسے ہیں کامیابی میں بھی اور ناکامی میں بھی۔ مگر سیاستدان زرداری بھی ایک مختلف کردار ہے۔ عمران خاں بھی ابھی پاکستانی سیاستدانوں جیسا نہیں۔ ابھی وہ اقتدار میں نہیں آیا۔ اسلئے اچھا سیاستدان ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ اس میں لیڈر ہونے کے امکانات بھی ہیں۔ اس کے کچھ اقدامات، خیالات اور بیانات لوگوں کو حیران کرتے ہیں اور کبھی کبھی پریشان بھی کر دیتے ہیں۔
وہ اچھا بولنے لگا ہے مگر اس نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ پرویز رشید کو پھر بیان دینے کا موقع مل گیا ہے جبکہ یہ بیان نوازشریف کے خلاف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران سے کوئی ڈر نوازشریف کو لگا ہوا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار چاہتے کیا ہیں۔ چودھری نثار نے بھی نوازشریف کے خلاف زبان کھلوانے کی کامیاب کوشش کر رکھی ہے۔ آج کل وہ نوازشریف سے خفا ہے۔ شاید وہ خود کچھ کہے جو مخالفین نہیں کہہ سکتے۔ پرویز رشید نے عمران کے خلاف بیان دے کے نوازشریف کا تو کیا فائدہ کرنا تھا۔ عمران کا فائدہ کر دیا ہے۔ جو لوگ اس سے ناراض ہو رہے تھے۔ انہیں یاد آ گیا ہے کہ عمران خان نظریہ پاکستان سے وابستہ ہے اور بھارت کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ سیاستدان عمران کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا جانے لگا ہے۔ اس پسندیدگی میں بھارتی اداکارائیں بھی شامل ہیں جو پاکستان دشمن بھارتیوں کو پسند نہیں۔ پاکستان میں بھی پاکستان دشمن حلقے عمران کو پسند نہیں کرتے۔ ہر بات میں اپنی پارٹی سیاست اور بیان بازی اچھی نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ گارڈن کالج میں پرویز رشید انقلابی تھا۔ اب بھی شاید ہو۔ اسے نوازشریف کی صحبت سے فرصت ملے تو کبھی کبھی شہباز شریف کے پاس بھی بیٹھا کرے۔ چودھری پرویز الٰہی کی ساتھی ماروی میمن کے تحریک انصاف میں جانے کو بے انصافی سمجھتے ہیں۔ اس کی تائید میں بھی پرویز رشید کا بیان آنا چاہئے۔
شوکت خانم ہسپتال میں فنڈریزنگ افطاری میں کسی نے کہا کہ عمران کو ایسے گورنر لگانے چاہئیں جو حضرت عمرؓ نے لگائے تھے۔ عمران خان نے کہا کہ ایسے گورنر پاکستان میں تو نہیں ملیں گے۔ شاید اسی لئے اپنے آپ کو اس نے گورنر کیلئے پیش کر دیا ہے۔ کراچی کے حالات صرف گورنر بن کر تو ٹھیک نہیں کئے جا سکتے۔ عمران کو اس کی کیا ضرورت ہے۔ اسے گورنر ہی بننا ہے تو گورنر جنرل پاکستان بنے۔ قائداعظم پہلے گورنر جنرل تھے۔ کوئی انہیں سابق گورنر جنرل نہیں کہتا۔ ہر کوئی انہیں قائداعظم کہتا ہے قائد یعنی لیڈر‘ حکمران سے بڑا ہوتا ہے۔ لوگ عمران کو لیڈر سمجھتے ہیں۔ وہ حکمران بن کے بھی حکمران نہ بنے۔ شوکت خانم کے خواجہ نذیرنے بتایا کہ تقریباً آٹھ کروڑ روپے افطاری میں اکٹھے ہوئے۔ یہ پیسے لوگوں نے عمران خان کو دیئے۔ گورنر سندھ کو نہیں دیئے۔ شوکت خانم کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان بھی ہسپتال کے گورنر بورڈ کا ممبر ہونا اعزاز سمجھتے ہیں۔ گورنر سندھ ہونا انہیں قبول نہ ہو گا۔ انہوں نے نوائے وقت میں کراچی میں شوکت خانم کی نوید بھی سنائی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ گورنر سندھ عشرت العباد کا کیا بنے گا۔ وہ پاکستان کا سب سے طویل العمر گورنر ہے۔ اس نے وہ زمانہ بھی گورنری میں شامل کر لیا ہے جو اس نے استعفیٰ دے کے دبئی میں گزارا۔ وہاں صدر زرداری سے ملاقات اس نے گورنر سندھ کے طور پر کی تھی۔ عشرت العباد حقوق العباد کا قائل ہی نہیں۔ اسے کراچی میں مقتولین کے لواحقین کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ اس کے دل میں ہر وقت الطاف بھائی کے فون کی گھنٹیاں کھڑکتی رہتی ہیں۔ کیا الطاف بھائی نے عمران کو بھی فون کیا ہے۔ لوگ عمران کو اپنے سر کا تاج بنانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی کا دیا ہوا تاج سر پر رکھنا چاہتا ہے۔
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی