بلھے شاہ نے تو جس سیاق میں بھی کہا تھا مگر لاہور کی ایک امیرزادی سعدیہ نے کتے کو کھانا نہ دینے پر اپنے ملازم کو موت کے گھاٹ اتار کر ثابت کر دیا کہ آج کے کتے انسان سے افضل ہیں۔ کیا دولت انسان کو اتنا اندھا اور غربت انسان کو موت کے حوالے کر دیتی ہے شاید ہم نے غلط کہا۔ اشرف المخلوقات اس حد تک .... ....، ظالم اور بے رحم نہیں ہو سکتی؟ شاید ایسے ہی امراءکے بارے قرآن گویا ہے ”اولئک ھم کالانعام بل ھم اضل“ (وہ مال مویشی کی مانند ہیں بلکہ اس سے بھی گمراہ ترین) مقتول ملازم کے والدین نے بتایا عطا محمد اور والدہ مقصودہ: کہ ہم لوگ انتہائی غریب ہیں اور ہم نے صرف دو ہزار روپے ماہوار پر اپنے بیٹے تقی عثمان کو چنیوٹ سے لاہور ملازمت پر بھیجا تھا۔ اب ہمارے پاس کیس لڑنے کے پیسے بھی نہیں۔ ہمیں اب میڈیا اور پاکستانی عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے۔ پولیس نے آلہ قتل برآمد کرنے کے لئے عدالت سے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے ملزمہ سعدیہ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے 18 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ یہ کیس لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پڑھ کر میری آنکھیں بھر آئیں اور مجھے یوں لگا کہ جیسے میں رومن ایمپائر میں ہوں۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی اور یہ سوچا کہ نہیں جہنم ایمپائر میں ہوں اور شداد نے بھی جنت بنائی تھی یہ کون شداد ہے جس نے ملک جہنم بنا دیا۔ پھر خیال آیا کہ ان کو اشرافیہ کیوں کہتے ہیں شدادیہ کیوں نہیں پکارتے۔ بے شک ہمیں اپنی عدلیہ اور میڈیا پر ناز ہے کہ وہ انصاف کا علم نیچا نہیں ہونے دے گی لیکن اس پرآشوب معاشرے میں توقع ہی اٹھ گئی ہے۔ پولیس، مجسٹریٹ اور میڈیا کی آزمائش کا وقت ہے۔ اب کوئی سرخ آندھی نہیں آتی کہ ہمارے معاشرتی مظالم نے سرخ آندھیاں ہی ختم کر ڈالی ہیں یا شاید سرخ آندھی کا بھی خون سفید ہو چکا ہے۔ یہ ظلم جو ایک خاتون جسے سعدیہ کہنا اب درست نہیں رہا کیوں کیا؟ کاش یہ جھوٹ ہوتا، مگر تقی عثمان کی قبر کی پکار کون روکے گا؟ ہمارے ہاں بدقسمتی سے دولت میں اتنا زور آ گیا ہے کہ کہیں ظلم انصاف سے بچھڑ نہ جائے۔ تقی عثمان کی قاتلہ اور کتے کی مالکہ کے پاس اگر رزق حلال کی فراوانی ہوتی تو وہ کتے کو کھانا نہ دینے کے جرم کی سزا موت نہ دیتی۔ اب وہ والدین کیا کہیں لڑیں گے، کیا جئیں گے مریں گے، صرف دو ہزار روپلی کے عوض ان کو جواں مرگ بیٹے کا لاشہ ملا۔ یہ المیہ ایک خاتون کے ہاتھوں سرزد المیہ نہیں ہم سب قاتل ہیں۔ زبردست زیردست کو اسی طرح کچل ڈالتا ہے جیسے گاڑی خربوزے کے چھلکے کو، اس سانحے کو جس انداز ستم گرانہ سے انجام دیا گیا اگر خون کی سیاہی بنا کر الم کے قلم سے رقم کیا جائے تو کیا حاصل؟ یہ نوحہ گری، یہ اشک آمدی، اس کے لئے تو یہ کالم بھی شرمندہ ہے۔ مگر اتنی امید ہے کہ کسی بھی غریب دو ہزار کے ملازم تقی عثمان پر کتے کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ ہم وہی ہیں ناں جو کہتے
کس شان سے امت کا امام آتا ہے
خود پیدل ہے سواری پہ غلام آتا ہے
کس شان سے امت کا امام آتا ہے
خود پیدل ہے سواری پہ غلام آتا ہے