قومی سطح پر زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو حکومت قومی اعزازات سے نوازتی ہے اور یہ اعزازات ہمیشہ انہی ممتاز شخصیات کو دئےے جاتے ہیںجو اپنے شعبے میں ایک عمر صرف کر دینے کے بعد ایک خاص مقام اور پہچان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یعنی یہ اعزازات زندگی کے مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پرملتے ہیں اور ان میں کھلاڑی، فنکار، شاعر ادیب، علمائ، سائنس دان، اساتذہ، سماجی خدمت گار اور وطن پر جان نثار کرنے کو ہمہ وقت تےار رہنے والے فوجی حضرات شامل ہوا کرتے ہیں۔ قومی اعزازات کا اعلان ہوتے ہی ان پر تنقید بھی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ بعض اوقات میرٹ کا مکمل خیال نہیں رکھا جاتا اور حکومت ِ وقت اپنے چند منظورِ نظر فنکاروں شاعروں ادیبوں صحافیوں، عالموں اور دیگر شعبوں کے ممتاز افراد کو بھی ایوارڈ دے ڈالتی ہے۔ یوں میرٹ کے مطابق انیس بیس کے فرق پر بھی ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ تنقید ہوتی رہتی ہے اور بہت کم ایوارڈز کو منصفانہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ادب کے شعبے میں پہلی بار ایسی شخصیات کیلئے ایوارڈ کا اعلان ہوا ہے جو واقعتاً اس کی حقدار تھیں اور انہیں صدارتی ایوارڈ بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا ان شخصیات میں ممتاز ماہر تعلیم‘ نقاد پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور پچھلے پینتےس برس سے ادب کا نمائندہ ادبی جریدہ (تخلیق) شائع کرنے والے معروف شاعر ادیب اور صحافی اظہر جاوید خاص طور پر شامل ہیں ہمیں دیگر ایوارڈ یافتگان کے ساتھ ان دو حضرات کو صدارتی ایوارڈ ملنے پر بے حد خوشی ہوئی ہے اس حوالے سے ہم پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی مبارک باد دینے والے تھے کہ ہماری ساری خوشی پر اس وقت اوس پڑ گئی جب حکومت نے خود اپنے آپ کو بھی ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں شامل کر لیا۔ مراد یہ ہے کہ حکومت نے خود اپنے وزرائ‘ مشیروں اور اپنے منظور ِ نظر بیوروکریٹس کو بھی اعزازات دینے کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ ان میں سے بعض مشیروں اور وزیروں کی کارکردگی صفر دکھائی دیتی ہے شاید یہی سبب ہے کہ آج میڈیا اور اپوزیشن سمیت عوام بھی حکومت کو کوس رہے ہیں کہ کس برتے پر حکومت نے اپنے وزیر ِداخلہ رحمن ملک‘ سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا‘ فرزانہ راجہ، فاروق نائیک‘ زمرد خان‘ سلمان فاروقی اور نرگس سیٹھی کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ تنقید رحمن ملک کے حوالے سے سامنے آئی ہے کیونکہ اس وقت‘ امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہو چکی ہے، کراچی بارُود کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے اور وہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ایسے میں وزیر داخلہ کیلئے ایوارڈ کا اعلان خود ایوارڈ کی توہین قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسے حضرات کو ایوارڈ دینے پر ساری قوم سراپا احتجاج ہے کہ اس سے خود اعزازات کی حیثےت بھی مشکوک بنا دی گئی ہے اور مختلف شعبوں میں عمر بھر کی کارکردگی دکھانے والے دیگر اہل افراد کے ایوارڈز کو بھی آلودہ کر دیا گےا ہے۔ کیا زمانہ آ گےا ہے کہ سرکار اپنے اردگرد کے سرکاری اہلکاروں کو بھی ایوارڈ دے رہی ہے۔ قومی غیرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ سرکاری اہلکار وزرائ‘ مشیر اور بیوروکریٹس فی الفور ان ایوارڈز کو شکرےے کے ساتھ واپس کر دیتے مگر؟۔۔۔ مگر یہ کلچر تو مہذب قوموں کا ہے اور ہم تو محض ہجوم کی طرح ہیں جن میں سر تو دکھائی دیتے ہیں دماغ نہیں۔۔۔۔ نجانے آج کراچی کے حوالے سے یہ شعر کیوں یاد آرہا ہے بلا تبصرہ حکومت وقت کی نذر ہے:
کھیلی ہے کس نے خون سے ہولی بہار میں
یہ ہنس رہا ہے آگ لگا کر چمن میں کون ؟
کھیلی ہے کس نے خون سے ہولی بہار میں
یہ ہنس رہا ہے آگ لگا کر چمن میں کون ؟