بلا شبہ اللہ تبارک تعالیٰ نے پاکستان کو وہ سب کچھ دیا ہے جس کی کسی بھی قوم کو خوشحالی اور ترقی کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس پورے ایشیائی براعظم میں بہترین جغرافیہ ہے، ہمارے پاس تمام موسم ہیں، ہمارے پاس ہر قسم کے مناظر ہیں، ہمارے پاس بلند ترین پہاڑ، زرخیز زرعی میدان، دریا، صحرا اور دنیا کے مصروف ترین سمندری تجارتی راستوں کے ساتھ ساتھ وسیع ساحلی پٹیاں ہیں۔ پاکستان کے پاس پیسہ کمانے اور ہماری معیشت کو مضبوط کرنے کے بے پناہ وسائل ہیں۔ نہ صرف ہماری زمین پر بلکہ زمین کے نیچے بھی بہت زیادہ معدنی وسائل ہیں۔ ہماری زمینوں کے نیچے سونا، تانبا، لوہا، جواہرات، سنگ مرمر، تیل، گیس اور دیگر بہت سی معدنیات موجود ہیں جنھیں ہم حتمی شکل دینے کے بعد اگر صحیح طریقے سے نکال کر مارکیٹ میں لائیں تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اس قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ٹیکنالوجی اور مہارت کی ضرورت ہے جس کی ہمارے پاس بہت سے شعبوں میں کمی ہے۔
پاکستان 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط معدنیات کے بڑے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہاں 92 معروف معدنیات ہیں جن میں سے 52 کا تجارتی استعمال کیا جاتا ہے جن کی کل پیداوار 68.52 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ یہ ایک امید افزا شعبہ ہے جس کی اوسط نمو 2.3 فیصد سالانہ ہے جس میں 5 ہزار سے اوپر آپریشنل کانیں موجود ہیں، 50 ہزار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار اور 3 لاکھ کارکنان کا براہ راست روزگار وابستہ ہے۔ ملک میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کانیں ہیں۔ تانبے سونے کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں۔ کوئلے کے دوسرے بڑے ذخائر کے ساتھ ساتھ اربوں بیرل خام تیل بھی موجود ہے۔ لیکن یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ معدنی دولت کے سب سے بڑے ذخائر ہونے کے باوجود ہماری معیشت میں معدنیات کا حصہ بہت کم ہے۔ وجوہ وہی ہیں جو اوپر بیان کی جا چکی ہیں، ٹیکنالوجی اور مہارت کی کمی۔ پاکستان کے جی ڈی پی میں معدنیات کے شعبے کا حصہ تقریباً 3 فیصد ہے اور ملک کی برآمدات دنیا کی کل برآمدات کا صرف 0.1 فیصد ہے۔ سال 2017 میں دنیا کی کل معدنی برآمدات 401 بلین امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی کل معدنی برآمدات 0.5 بلین امریکی ڈالر تھیں۔
پاکستان میں تانبے اور سونے کے بہت بڑے ذخائر ہیں جو بنیادی طور پر ریکوڈک ضلع چاغی بلوچستان میں موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 5.9 بلین ٹن سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ اینٹوفاگاسٹا کمپنی ریکوڈک فیلڈ ہیں 1 لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن تانبے اور 3 لاکھ اونس سونے کی ابتدائی پیداوار پر کام کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ ایک سال میں 3 لاکھ 50 ہزار ٹن سے زیادہ تانبا اور 9 لاکھ اونس سونا پیدا کرسکتا ہے۔ ضلع چاغی میں واقع دہت کوہن، نوکنڈی میں بھی تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے اور سونے کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں۔ تانبے اور سونے کی کان کنی کے جدید منصوبو ں میں کاپر ریفائننگ پلانٹ اورگولڈ ریفائننگ پلانٹ شامل ہیں۔قدرت نے پاکستان کو قیمتی پتھروں کے بے شمار خزانوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے کچھ معدنی دنیا میں پاکستان کو نمایاں کرتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ مطلوبہ رنگ کے قیمتی پتھر، جیسے ایمرالڈ، روبی، سیفائر، پکھراج، ایکوا میرین اور ٹورمالائن پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان کے پاس قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر ہیں جن میں نایاب قیمتی پتھروں کی اقسام بھی شامل ہیں۔جیسے کٹلانگ مردان کا گلابی پکھراج دنیا بھر میں منفرد اور مشہور ہے۔ پاکستان دنیا کے 30 فیصد قیمتی پتھر پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کی علاقائی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ اس کے عوام اور بادشاہ جواہرات کو بہت پسند کرتے تھے۔ گندھارا اور سندھ کی تہذیبوں کے آثار اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی حصے ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم تین عالمی مشہور سلسلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ پہاڑ معدنیات کے ذخائر سے بھر پور ہیں۔ وادی سوات کا گہرا سبز زمرد اور کٹلانگ کا نایاب گلابی پکھراج عالمی منڈی کے قیمتی پتھروں میں سے ایک ہیں۔ جواہرات کے ذخائر بنیادی طور پر پاکستان کے شمالی حصے اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں واقع ہیں۔ دنیا کے اعلیٰ معیار کے زمرد، ایکوامیرین، ٹورمالین، یاقوت، کوارٹج، پکھراج، گارنیٹ اور مختلف قسم کے دوسرے قیمتی پتھروں کے ذخائر شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں 34 سے زائد اقسام کے قیمتی پتھر تیار کیے جا رہے ہیں۔ سوات میں زمرد مشہور ہے۔
اتنے بھرپور وسائل کے باوجود عالمی منڈی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2017ء میں عالمی منڈی میں پاکستان کا حصہ 0.03 فیصد تھا جو کہ قیمتی پتھروں کی پیداواری صلاحیت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔پرانی انتظامی تکنیکوں، ناکافی سرمایہ اور استعمال کی وجہ سے کم شراکت اورقدیم تکنیکی معلومات کے علاوہ ان علاقوں میں امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال اس کی اہم وجوہات ہیں۔ پاکستان جیمز اینڈ جیولری ڈویلپمنٹ کمپنی 2006ء میں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ذیلی ادارے کے طور پر قائم کی گئی تھی، جو وزارت صنعت و پیداوار، حکومت پاکستان کے تحت کام کرتی ہے۔ کمپنی کا چارٹر پاکستان کی جواہرات اور زیورات کی صنعت کی کان سے مارکیٹ تک ویلیو چین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
ماہرین سفارش کرتے ہیں کہ معدنی وسائل سے زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ اٹھانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کی جائے، مارکیٹنگ کے طریقوں کو اپڈیٹ کیا جانا چاہیے اور وفاقی صوبائی اور مقامی سطحوں پر کام کرنے والے محکموں اور کمپنیوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے ایک ریگولیٹری فریم ورک ضروری ہے۔ قومی معدنی پالیسی اور صوبائی کان کنی کی پالیسیوں/ قوانین کے درمیان روابط قائم کرنا کاروبار کو فعال کرنے کیلئے کافی بنیادی ڈھانچا یعنی کان تک رسائی والی سڑکیں، سڑکوں کے نیٹ ورک کو جوڑنا چاہیے۔ کھدائی اور پروسیسنگ کے ذیلی شعبوں میں اختیار کی گئی ٹیکنالوجی پرانی ہے اور اس سے قاصر ہے۔ عام طور پر گھریلو مارکیٹ اور برآمد کیلئے معیاری اور یکساں معیار کی مصنوعات تیار کریں۔ پاکستان میں کان کا ضیاع بین الاقوامی ضیاع کے مقابلے میں 75 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ہیومن ریسورس کی پیداواری صلاحیت کم ہے جس میں اہل اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی تعداد کم ہے۔ کان کنی اور پروسیسنگ کی سطح میں معیاری تربیت فراہم کرنیوالا کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے۔پاکستان کے معدنی وسائل کی حقیقی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کیلئے ان تمام کوتاہیوں پر قابو پانا چاہیے۔ اب حکومت پاکستان نے منرلز سے فائدہ اٹھانے کیلئے عالمی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کا جو ادراہ اور فیصلہ کیا وہ انتہائی خوش آئند ہے۔ اس نیک مقصد کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بجائے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو حکومت کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ اور مائنز اور منرلز بل کو پاس کرکے حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔
پاکستان کو قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے
Apr 23, 2025