جس خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا ہے اُس نے انسان کو اس وعدے کے ساتھ زمین پر بھیجا ہے کہ اُس نے میرے پاس واپس بھی آنا ہے۔ کس نے کتنے وقت کے لئے اس دنیا میں رہنا ہے؟ یہ حساب کتاب بھی اُس نے اپنے پاس ہی رکھا ہے ۔میرے برادر نسبتی اور دوست شبیر احمد چغتائی 12اپریل کو برطانیہ میں رضائے الٰہی سے انتقال کر گے۔ انکی پوری فیملی کو اپریل کے شروع میں نزلہ وزکام کی شکایت پیدا ہوئی۔باقی فیملی تو اس کے اثرات سے نکل گئی لیکن بخار ، کھانسی اور سانس کی شکایت بڑھ گئی چونکہ اُن کا پہلے دل کا آپریشن بھی ہو چکا تھااس لئے ہسپتال اور ڈاکٹرز کو بار بار فون پر بلایا گیا لیکن ڈاکٹرز نے انھیں کچھ وقت کے لئے گھر پر ہی رہنے کا مشورہ دیا۔یقینا برطانیہ میں محکمہ صحت کا نظام بہت اچھا ہے لیکن " کرونا" خوف سے مریضوں کو زیادہ تر گھر پر رہنے کاہی کیوں مشورہ دیا جاتا ہے حالانکہ مریض جس حالت میں بھی ہو ،اسے اینٹی بائیوٹک میڈیسن کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن متعلقہ ہیلتھ اتھارٹیز ہی بہتر جانتی ہیں کہ انہیں اتنی دیر سے ہسپتال کیوں بلایا گیا ؟ ان کی دو بیٹیاں فارماسسٹ ہیںلیکن برطانوی قانون کے مطابق ڈاکٹرز کے مشورے کے بغیر کوئی دواء نہیں دی جا سکتی۔ بہر حال جب انھیں ایمبولینس لینے آئی تو وہ خود اپنے قدموں پر چل کر ایمبولینس میں بیٹھے۔ ڈاکٹرز نے انھیں بتایا کہ بیماری کی شدت اور کھانسی کی بنا پر انھیں بے ہوش رکھنا پڑے گا تو انھوں نے ڈاکٹرز سے کہا کہ مجھے چند منٹ کے لئے نماز پڑھنے کی مہلت دی جائے ! اس کے بعد انھوں نے ویڈیولنک کے ذریعے بچوں اور فیملی سے بات کر کے انھیں تسلی دی اور خود کو اللہ اور ڈاکٹرز کے حوالے کر دیا۔ پہلے تو کچھ دن صورت حال بہتر ہوئی بعد میں بتدریج ڈائون ہونی شروع ہو گئی۔ تقریباََ بارہ دن بعد نئی میڈیسن ٹرائی کی گئی لیکن یہ کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ اسی اثنا میں جب کڈنی نے کام چھوڑ دیا تو انھیں ڈائیلاسسز پر شفٹ کر دیا گیا اور آخری دن جب ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق آہستہ آہستہ آکسیجن میں کمی کی گئی تو سانس کا نظام اور لنگز(LUNGS) بھی جواب دے گئے اور انھوں نے کومے میں ہی اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
احتیاط کے پیش نظر آجکل فیملی اور رشتہ داروں کو بھی برطانیہ میں ہسپتال جانے کی اجازت نہیں ملتی لیکن شکر ہے کہ آخری وقت پر انکی بیٹی اور ایک بیٹا اُن کے پاس موجود تھے ۔ بیوی کے لئے اُسکا خاونداور بیٹے اور بیٹوں کیلئے اُسکے ماں باپ ہی سے سب کچھ ہوتے ہیں ہم سب نے بھی ایک دن اسی سفر پر روانہ ہونا ہے۔ ہر بندے کو کب بلا وا آتا ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں اور جب بلاوا آتا ہے تو ہمیں بھاری بھاری ساز و سامان اور گٹھڑیوں کو چھوڑ چھاڑ کر سفر پر روانہ ہونا ہوتا ہے۔ لیکن دیار غیر میں جب اپنے عزیز رشتہ دار موجود نہ ہوں تو یہ سفر بہت ہی تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔ ایک بہن نیو یارک دوسری بہن پاکستان ، ایک بھائی ملتان اور دوسرا بھائی آسٹریلیا میں لیکن یہ دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی کی نیشنل ہیلتھ اتھارٹی برطانیہ اور لوکل مسلم اتھارٹی کے تجہیز و تدفین کے انتظامات نہایت ہی تسلی بخش ہیں۔مرحوم ایک باغ و بہار شخصیت تھے ہر وقت مسکرا مسکر ا کر بات کرنا ان کا شیوہ تھا ہر شخص انھیں اپنا ہی خاص دوست سمجھتا تھا۔ میری مرحومہ اہلیہ کے وہ چھوٹے بھائی تھے جب میرا اہلیہ سے چھوٹا موٹا جھگڑا ہو جاتا تھا تو میں اپنی اہلیہ سے کہتا تھا کہ تم نے اگر میری بات نہ مانی تو میں شبیر صاحب کے پاس مانچسٹر چلا جائوں گا میری اہلیہ 2009میں انتقال کر گئیں تو وہ دوسرے دن مانچسٹر سے یہاں پہنچ گئے اور میری چاروں بچے بیرون ملک چلے گئے تو مجھے پھر گھر آباد کرنا پڑا لیکن جب میں اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ 2011میں ان کے پاس مانچسٹر گیا تو دونوں میاں بیوی اور فیملی نے ہمیں بہت ہی عزت اور احترام دیا۔ عزیوں ، دوستوں کی مدد کرنا مرحوم کا شیوہ تھا۔شاید ان کی یہ عادت انکی فیملی کی سرشت میں شامل تھی جو انھیں اپنے والد مرحوم مصطفی چغتائی سے ورثہ میں ملی تھی۔ بیماری سے تقریبا ایک ماہ پیشتر مجھے ایک کینسر مریض کا فون آیا اُس نے بتایا کہ میرا زیادہ تر علاج ہو چکا ہے اور اب دو انجکشن کے لئے مجھے ایک لاکھ ستر ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ میرے لئے یہ بہت بڑی رقم تھی مجھے دس ہزار تو ایک دیرینہ دوست سے مل گئے لیکن باقی خطیر رقم کا اکٹھا کرنا مشکل امر تھا میںنے رات کو شبیر کو فون پر بات کی اور مدعا بیان کیا۔ اگلے دن مجھے بیٹے کا فون آیا کہ انکل شبیر نے مجھے ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی رقم بھیجی ہے جو آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر رہا ہوں۔جب میرے بڑے بھائی عبد الرزاق چیف ایڈیٹر اخبار وطن 2004میں لندن میں انتقال کر گئے تو مشہور قلم کارعبدالقادر حسن نے اپنے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ میں بڑے بڑے شہروں کو ان کی عمارتوں کے حساب سے نہیں بلکہ یہ دیکھتا ہوں کہ میرا کون سا عزیز یا دوست اس شہر میں موجود ہے اور کہاتھا کہ اب میں کس منہ سے لندن کا جائوں گا کیونکہ اب مجھے میرا دوست وہاں نہیں ملے گا !۔۔ آج میرا بھائی شبیر بھی چلا گیا ہے تو میں بھی اب یہ سوچتا ہوں کہ اب میں کس منہ سے مانچسٹر جائوں گا؟ لیکن شبیر فکر نہ کرناانشاء اللہ تمہاری قبر کی مٹی چومنے کے لئے ضرور مانچسٹر آئوں گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024