ہم ایک دور کی تاریخ کو یاد کرتے کرتے ایک نئی تاریخ قلم بند کر بیٹھے۔یہ حرکت غیرا رادی طور پر سرزد ہو گئی تھی۔ سرور سکھیر اس محفل میں آنے کو تیار نہ تھے، کہتے تھے کہ میں گئی رات کا افسانہ ہوں، ایک عہدپارینہ کا قصہ ہوں۔ گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے، میاں کیوں چھیڑتے ہو ہم فقیروں کو ۔ میںنے کہا کہ آپ نے کس کو نہیں چھیڑ اور کس کو چھوڑا۔ محفل ترتیب دینے میںمشکل پیش آئی۔ ان کے اکثر ساتھی رخصت ہو چکے۔ مجھے بھی پرویز زحمید بے طرح یاد آئے۔ حسن نثار کے بارے مین علم ہو اکہ گھر سے نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ شاید کوئی سیکورٹی کا اشو لاحق ہے ۔ نذیر ناجی بھی صاحب فراش ہو چکے۔ مگر جاوید اقبال کارٹونسٹ دستیاب ہو گئے اور ان کی خوبی ہے کہ جہاں بلائو وہاں چلے آتے ہیں مگر بن بلائے کہیںنہیں جاتے۔ اور خاور نعیم ہاشمی بھی مل گئے۔ بلکہ آ بھی آ گئے، صحافت کی خاطر انہوںنے کوڑے کھائے ، شاہی قلعہ بھگتا اور ساڑھے سات ماہ کی قید کاٹی۔ اچھا تو سرور سکھیرا اور جاوید اقبال کے ساتھ بھی نہیں ہوا ۔ کہیں جاوید اقبال نے ریکوئل ویلش کا کارٹون بنا دیاا ور سرور سکھیرا نے بنا سوچے سمجھے اسے چھاپ بھی دیا اور ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ سرور سکھیرا کا میگزین دھنک پیپلز پارٹی کی آنکھ کا تارا تھا اور ان کی ٹیم اس دور کی بھگوان خیال کی جاتی تھی جسے کوئی ہاتھ لگانے کی سکت نہیں رکھتا تھا مگر جب شامت ا ٓجائے تو پھر کون خیال کرتا ہے۔ جاوید اقبال کوایس ایس پی لاہور نے پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا۔ سرورسکھیرا کو گوالمنڈی پولیس اٹھا لے گئی ۔ اورپھر انہیں اسلام آباد میں کسی ڈی جی آئی کے سامنے پیش کیا گیا، دونوں پوچھتے تھے کہ ہمارا جرم کیا ہے۔ بتایا گیا کہ خاتون اول نصرت بھٹو کا کارٹون چھاپا۔ وہ حیران تھے کہ ریکوئل ویلش کو نصرت بھٹو کیسے سمجھ لیا گیا مگر کسی نے شرارت کر دی اور شکائت لگادی ۔دونوں دھر لئیے گئے۔ یہ تو لوگوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے اور اب خود چھیڑ چھاڑ کا نشانہ بن گئے۔
دھنک کیوں نکالا ، کیسے خیال آیا ۔ ہم نے سرور سکھیرا سے پہلا سوال یہ کیا اور یہ سوال ہی پہلا سوال ہونا چاہئے تھا ۔اس محفل میں طفیل اختر بھی تھے، ان کی تیکھی تحریروں کا تو مزہ ہی اور تھا۔ محمود مودی نہیں تھے۔ وہ اردو ڈائجسٹ میں بھی رہے۔ اور نواز فوٹو گرافر نے دھنک میں کیمرہ پکڑاا ور اب نوائے وقت گروپ سے منسلک ہیں۔ ریاض صحافی بار بار کہتے کہ انہیں سکھیرا صاحب نے قلم پکڑنا سکھایا۔ سبھی اپنے ہیرو، اپنے محسن اور اپنے دو ر کے لیجنڈ کے ساتھ چند خوشگوار لمحات گزارنے کشاں کشاں چلے آئے تھے۔
دھنک کیوں نکالا۔ سرور سکھیرا کا جواب نرالا تھاکہ وہ ایک ا سلامی پلے بوائے شائع کرنا چاہتے تھے۔ اس دور کا پلے بوائے تو شرفا کی برداشت سے باہر تھامگر سرور سکھیر انے اسے اسلامی جامہ پہنا دیا جس کی وجہ سے یہ کچھ کچھ برداشت کے قابل ہو گیا، جیسے اسلامی سوشل ازم۔ دھنک دیکھتے ہی دیکھتے دنیائے صحافت پہ چھا گیا،ا س سے پہلے کئی طنزیہ مزاحیہ میگزین نکلے مگر ان کا رنگ ڈھنگ ذرا سا شرارتی تھا۔سرور سکھیر ا نے کہا کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ میگزین کیا ہوتا ہے۔ اسے کیسے چھاپتے ہیں ، وہ لارنس روڈ پر ویو پوائنٹ کے دفر میں مظہر علی خاں سے ملے اور پوچھا کہ جو رسالے عام سائز کے ہیں۔ ان سے ہٹ کر سائز میں رسالہ چھاپ دیں۔ پہلا پرچہ پانچ ہزار چھپا اور دوسرا بھی پانچ ہزر ۔ تیسرے مہینے پتہ چلا کہ ان میں سے کوئی بھی فروخت نہیں ہوا، اخبار مارکیٹ والے دفتر کو واپس کرنا چاہتے ہیں سرور سکھیرا نے کہا کہ واپس نہ کرو بلکہ کالجوں،یونیورسٹیوں ، گلبرگ اور کینٹ کے پڑھے لکھے نوجوانوںمیںمفت بانٹ دو،۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرا پرچہ پندرہ ہزار چھپا جس میں سے دس ہزرا ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ مجھے دوبئی سے طارق خان نیازی نے فون پر بتایا ہے کہ دھنک کی سیل بڑھانے میں ان کابھی بڑا ہاتھ ہے ، وہ منوں کے حساب سے یہ رسالہ لاہور سے خرید لے جاتے اور دوبئی میں مہنگے داموں بیچتے۔ جب ان کا سٹاک ختم ہو جاتا تو فوٹو کاپیاں بکنے لگ جاتیں، طارق نیازی برسوں تک نوائے وقت میں بیرونی ممالک سے مکتوب نگاری کرتے رہے۔ چہرے پر تیز مسکراہٹ ہر وقت طاری رہتی ہے ، شاید دوسروں پر ہنستے ہیں کہ وہ اب سیٹھ صاحب کے لقب سے مشہور ہیں۔جس وقت ہماری محفل جاری تھی تو اسی ہوٹل میں ان کے بیٹے کی ایک ایکسپو دوبئی کی پراپرٹی کے بارے میں لگی ہوئی تھی۔
سرور سکھیراا ور ان کے اسلامی پلے بوائے نے بے حد عروج دیکھا،وہ بھٹو حکومت کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھی زیادہ تر فارغ ہیں ، بہتر ہو گا کہ ان کے ساتھ بیٹھیں اور اس دور کی تاریخ مرتب کریں جو سرور سکھیرا کی یاد داشتوں کے غلاف میں پنہاں ہے۔ جب دھنک مقبول ترین پرچہ تھا تو میں اردو ڈائجست کی ٹیم کا حصہ تھا۔ رسالہ ہمارا بھی کسی سے کم نہیں تھا مگر دھنک پڑھے بغیر روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی،۔ بس اسے چورن سمجھ لیجئے۔ دھنک میں شرارتی قسم کے انٹرویوز ہوتے۔ اور لوگوں کے ایسے خاکے کہ جس کا خاکہ لکھا جاتا وہ سر پہ خاک ڈالے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر اس میگزین نے اس طرح لوگوں کی پگڑیاں نہیں اچھالیں جیسے اس دور کے بعض اخبارات اور جرائد کی عادت تھی، دھڑ کسی رقاصہ کا اور سر مولانا مودودی کا۔ اور سرخی جمتی کہ ادھر ہم ۔ ادھر تم۔ پیپلز پارٹی کہتی ہی رہ گئی کہ بھٹو نے یہ نہیں کہا مگر عباس اطہر نے یہ سرخی جمائی تھی۔ کہتے رہے کہ جو ہو ا، وہ سرخی میں موجودہ تھا۔ سرور سکھیرا ا س دور کے شرفا میں سے تھے۔ اورا ٓج بھی شریف ہی سمجھے جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ایک روز ایم ایم عالم روڈ پر انہوںنے کافی نوش کی۔ قریب کی ٹیبل پر دو چنچل لڑکیاں بیٹھی تھیں ، وہ کھا پی کر جانے لگیں تو سرور سکھیرا نے پیش کش کی کہ بل وہ دیں گے لڑکیوںے کورس میں گانا گایا ، تھینک یو بابا جی۔ سفید بالوں والا بابا نہیں ہو گا تو اور کیا ہوگا مگر وہ انکل ہی کہہ دیتیں ۔ سرور سکھیرا کی عزت رہ جاتی۔
سرور سکھیرا کوئی تین عشرے باہر گزار کر آئے ہیں۔ کہتے ہیں باہر جی نہیں لگتا ۔ پنجابی بولنے کو ترس جاتا ہوں اور وہ بھی ٹھیٹھ پنجابی جو ان کے بچوں کو بھی سمجھ نہیں آتی۔ بچوں سے مراد پوتے پوتیاں ہیں۔ ان دنوں ان کی کوئی خواہش نہیں ۔ بس وہ ملک سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے ۔ کہتے ہیں وطن وطن ہی ہوتا ہے ۔
دھنک ڈرائنگ روموں کی زینت بنتا تھا۔امیر طبقے کا پسندیدہ تھا۔ شو خ و شنگ نوجوان بھی ہاتھوں ہاتھ لیتے مگر سرور سکھیر کہتے ہیں کہ ان کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا تھا، ان کے والد ان کی مالی مدد کر تے رہے ، ایک بار سخت مالی بحران تھا کہ ایک اداکارہ اپنا زیور لے آئی کہ اسے بیچو اور رسالہ چلائو مگر سرور سکھیرا ایک عورت کے زیور پر ہاتھ صاف نہ کر سکتے تھے۔ ایک کارکن نے تنخواہ میں اضافے کامطالبہ کیا تو انہوںنے اپنی قیمتی اوپل کار اس کے حوالے کر دی اور خود پیدل گھر گئے۔ رسالہ منافع کماتا تو فوری طور پر کارکنوں کی تنخواہ بڑھا دیتے، یوں ا ن کے کارکن ان پر فریفتہ تھے اور چند روز قبل وہ پروانوں کی طرح ان کی محفل میںچلے آئے یہ شام یاد گار بن گئی ، ہم تو تاریخ کے اوراق پلٹنے بیٹھے تھے،محفل سے اٹھے تو نئی تاریخ رقم ہو چکی تھی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38