منگل‘ 17 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 23؍ اپریل 2019ء
سب کام ترین نے کرنے ہیں تو ہم آلو چنے بیچنے آئے ہیں: گورنر پنجاب
ریڑھی توجس کی مرضی ہے جو بھی لگائے۔ آلو چنے بیچنا بھی اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ذرا کبھی کسی کو موقع ملے تو وہ آلو چنے چاٹ والی ریڑھیوں کے اردگرد کھانے والے شائقین کا ہجوم تو دیکھے جس پر ہجوم عاشقاں کا گماں گزرتا ہے۔ اتنے شائقین تو نرگس اور دیدار کو بھی میسر نہ ہوں گے جتنے آلو چنے بیچنے والوں کی ریڑھی یا دکان پر سرشام کھڑے نظر آتے ہیں۔ اب یہ جو سیاست ہے یہ بھی ایسا ہی پروفیشن ہے۔ اس میں بھلا قربانیاں دینے کون آتا ہے۔ سب کے سب بنیئے کے بیٹے نظر آتے ہیں جو کچھ دیکھ کر ہی کبھی مسلم لیگ‘ کبھی پی ٹی آئی اور کبھی پیپلز پارٹی کی جھولی میں آ گرتے ہیں۔ جہانگیر ترین کی سب سے بڑی خوبی جو ہے اس سے ہمارے اکثر سیاستدان نابلد ہیں۔ جہانگیر ترین دینے اور لگانے والے شخص ہیں۔ باقی اکثر سیاستدان صرف کمانے والے نظر آتے ہیں ۔جو چند ایک باقی ہیں۔ پاک دامن ہونے کی بات کرتے ہیں وہ صرف کمانے اور لٹانے سے بچ کر رہتے ہیں۔ یوں نہ کسی کو کچھ دیتے ہیں نہ کسی سے کچھ لیتے ہیں۔ بہرحال اب دروازے پر تو اسی کے ہی ہجوم ہو گا ناں جو لٹاتے ہیں۔ گورنر پنجاب کو تو خوش ہونا چاہئے کہ ان کی پارٹی میں لگانے اور لٹانے والا بھی ہے۔ اگر یہ نہ رہے تو پھر وہی عامیانہ بولی میں ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ باقی رہ جائے گا۔ آپ لوگ بھی ہمت کریں‘ آگے بڑھیں۔ جو کام ترین نے کرنے ہیں وہ خود کر کے دکھائیں تو ترین کی دکان خودبخود مندے میں جائے گی۔ بقول شاعر …؎
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کرنی کسے نہیں آتی
سو آگے بڑھیئے اورمقابلہ کیجئے۔ کاروبار میں مات باتوں سے نہیں دی جا سکتی۔
٭٭٭٭
پی آئی اے کو خسارے سے نکال لیا۔ انتظامیہ کا دعویٰ
جھومیں کبھی ناچیں کبھی لہرائیں خوشی سے
جی چاہتاہے آج کہ مر جائیں خوشی سے
اس اطلاع کے بعد تو واقعی بہت سے لوگوں پر شادی ٔمرگ کی کیفیت طاری ہو گئی ہو گی، جس کے مطابق پی آئی اے کے اخراجات اور آمدن برابر ہو گئے ہیں تو کیا اب آنے والے چند ماہ میں پی آئی اے واقعی منافع کے روٹ پر اُڑتی نظر آئے گی۔ خواب تو بہت خوش کن ہے اس لیے اس پر فی الحال آنکھ بند کر کے اعتبار کریں اورزبان و بیان کا لطف اٹھائیں۔ عوام کی اکثریت تو اس بیان پر اس چچا غالب کی وہی گھسی پٹی بات ؎’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘ دہرا کر اس خوش فہمی سے باہر آنے کے درپے ہیں۔ اس وقت اگر پی آئی اے‘ سٹیل ملز، ریلوے اور واپڈا جیسے سفید ہاتھی راہ راست پر آ جائیں اور ان کی آمدنی اور اخراجات مساوی ہی ہو جائیں تو پوری قوم خوشی سے نہال ہو جائے۔ ان اداروں کی مسلسل کارکردگی دیکھیں تو یہ ادارے کم اور خون چوسنے والی جونکیں زیادہ نظر آتی ہیں۔ پھر بھی دعا تو یہی ہے کہ پی آئی اے ایک بار پھر فضائوں میں راج کرے۔ اس پر عروج کے دن آئیں۔ اس طرح پی آئی اے کے وہ مرد و خواتین فضائی میزبان جو یورپ اور امریکہ جا کر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں بھی اپنے فیصلے پر افسوس ہو اور وہ فضائی تکنیکی عملہ اور ہوا باز جن کی ڈگریاں مشکوک ہیں اور جو میرٹ سے ہٹ کر بھرتی ہوتے ہیں انہیں بھی اپنی دو نمبری پر افسوس ہو۔ اب ذرا ان لوگوں کی بھی خبر لی جائے جن کی وجہ سے پی آئی اے جیسا قابل فخر قومی ادارہ باعث ندامت بنا۔
٭٭٭٭٭
نااہلی کے الزام پر دکھ ہے۔ عمران کا فیصلہ تسلیم، میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ عامر کیانی
کابینہ میں ردوبدل کے بعد تبدیلی اور مستعفی ہونے والے وزرا اب صفائیاں دینے لگے ہیں۔ مگر ان کی بات مانے گا کون‘ سنے گا کون۔ اب وزیر صحت عامر کیانی کو ہی دیکھ لیں کتنی معصومیت سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں نااہلی کے الزام پر بہت دکھ ہے۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔ مگر ساتھ ہی وزن برابر کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ان کو عمران خان کی قیادت اور ان کے فیصلے پر اعتماد ہے۔ مگر میں بے قصور ہوں۔ اب اس کا صاف مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ انہیں بطور چالیسواں قیدی صرف گنتی پوری کرنے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں باقی وزرا بھی جن میں وزیر پٹرولیم غلام سرور خان بھی شامل ہیں دبے لفظوں میں وزارت کی تبدیلی پر شکایت کر رہے ہیں مگر اس طرح کہ مزاج یار برہم نہ ہو۔ باقی رہ گئے وہ وزیر جنہوں نے اپنی زور آور وزارتوں کی برطرفی بسر و چشم قبول کر لی ہے۔ وہ اب اپنی نئی بے ضرر قسم کی وزارتوں پر بھی شکر بجا لا رہے ہوں گے کہ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ مگر وزیر دفاع پرویز خٹک بھی خود کو وزیر داخلہ نہ بنائے جانے پر ناخوش ہیں اور اس کا اظہار بھی روایتی بیگمات کی طرح منہ بسورتے کرتے ہیں مگر آنکھوں میں کیا مجال ہے کہ ایک اشک بھی ہو۔ لے دے کر صرف اسد عمر ہی بڑی بہو کی طرح دبنگ انداز میں دوسرا درجہ قبول کرنے سے انکاری ہوئے ہیں۔ کوئی دوست یا قریبی ساتھی بھی انہیں منانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ تاہم یہ سب رونے دھونے کے باوجود خان صاحب کی چھتری تلے ہی رہنے پر خوش ہیں۔ اب دیکھنا ہے یہ ناراضگیاں اور گلے شکوے کیا رنگ لاتے ہیں۔شیخ رشید جیسے دانش مند تو گھر کے معاملات گھر میں ہی سلجھانے کے مشورے دے رہے ہیں۔
٭٭٭٭
رمضان میں پھلوں اور سبزیوں کی سپلائی متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ اکرم چودھری
پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں کبھی بھی پھلوں اور سبزیوں کی سپلائی متاثر نہیں ہوتی۔ ماسوائے قدرتی آفات مثلاً زلزلہ و سیلاب یا خشک سالی کے۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ سپلائی جاری رہے۔ اس وقت مسئلہ قیمتوں کا ہے۔ عوام کی جیب کا ہے۔ جن کی پہنچ سے یہ دونوں چیزیں دور ہو چکی ہیں۔ بازار اس وقت بھی بھرے ہیں۔ دکانیں اس وقت بھی رنگ برنگی سبزیوں سے سجی ہیں۔ ریڑھیوں پر اس وقت بھی ہر قسم کا پھل اپنی بہار دکھا رہا ہے مگر یہ سب کچھ صرف اور صرف ونڈو شاپنگ تک ہی محدود ہے۔ عوام الناس انہیں دیکھ کر آہیں بھر کے گزر جاتے ہیں۔ اشرافیہ دام طے کئے بغیر ہی خرید کر چلی جاتی ہے۔ حکمرانوں نے اگر کچھ کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان اشیا کی قیمتوں میں کمی کرتے ہوئے انہیں اعتدال پر لایا جائے۔ اگر قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوں گی تو چاہے قدم قدم پر پھلوں اور سبزیوں کی دکانیں کھل جائیں ریڑھیاں سج جائیں۔ اس سے کیا ہو گا۔ ’’مزہ تو تب ہے جب گرتوں کو تھام لے ساقی‘‘ قیمتیں اعتدال پر لائیں تو بات بنے۔ ایسا کرے گا کون موجودہ دور میں تو مہنگائی نے حد ہی پھلانگ لی ہے۔ لوگ روزوں سے پہلے ہی فاقہ کشی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ خدارا انہیں ماہ رمضان میں ہی پھلوں اور سبزیوں کا ذائقہ بھی چکھنے دیں چاہے منافع خوروں کوجیلوں میں کیوں نہ ڈالنا پڑے۔
٭٭٭٭