مسٹر مودی نے بھارت کا وزیر اعظم بنتے ہیں عوام کو بے شمار نئے نعرے دیے جن میں ’ ’ میڈ ان انڈیا‘‘، ’’ شائیننگ انڈیا‘‘ ’’ سٹارٹ اپ انڈیا‘‘ اور ’’ سٹینڈ اپ انڈیا‘‘ جیسے دلفریب نعرے شامل تھے۔ انکے وعدے سن کر اور انکے تنخواہ دار چینل دیکھ دیکھ کر بھارتی عوام کا خیال تھا کہ بس چار پانچ برس میں بھارت دنیا کی اگلی سپر پاور ہو گا۔ آج جب مودی جی کا دور اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے ، تو بھارتی عوام کو معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سب نعرے جھوٹ کا سراب تھے اور بھارت کی ساری اقتصادی، معاشرتی اور فوجی ترقی صرف کچھ ٹی وی چینلز تک محدود ہے جہاں بیٹھ کر انکے اینکر اور ریٹائیرڈ فوجی پاکستان پر ’’ سٹیک نشانے ‘‘ لگاتے ہیں اور پھر اپنے پائیلٹ واہگہ بارڈر پر وصول کرتے اور پوری دنیا میں مذاق بنوا لینے کے بعد سشما سوراج کو یہ قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان کے خیالی سرجیکل سٹرائیک میں پاکستان کا کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ مودی جی کے ماضی ، انکی خواہشات اور پالیسیوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو نہ صرف یہ کہ انکا کوئی دعویٰ حقیقت کا روپ دھارتا نظر نہیں آتا بلکہ اگر غور کیا جائے تو مسٹر مودی ایک ذہنی مریض نظر آتے ہیں جو اپنی بنائی ایک خیالی دنیا میں قید صرف منفی سوچوں میں گھرے بیٹھا ہے ۔
ماضی پر نظر دوڑائیں تو مسٹر مودی اور انکی پارٹی کو بھارت میں مقبولیت بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملنا شروع ہوئی ۔ انکے دور حکومت میں گجرات میں 2002 میں ہونیوالی مسلمانوں کی نسل کشی مودی سرکار کا ایسا کارنامہ ہے جسکا لہو رہتی دنیا تک وزیر اعظم مودی کے ہاتھوں پر نظر آتا رہے گا۔ انکے وزیر اعظم بننے تک دنیا میں انکی پہچان انتہا پسندی اور دہشتگردی تھی ا ور اسی بنا پر انکے امریکہ میں داخلہ پر پابندی تھی۔ گجرات فسادات سے متعلق بہت سے کیس ابھی بھی انڈیا کی عدالتوں میں مسٹر مودی اور اسوقت کی گجرات سرکارکیخلاف زیر سماعت ہیں۔ ان میں ’’ دائود برادران بنام مودی وغیر‘‘ہ اور دوسرا ’’ذکیہ جعفری بنام مودی سرکار وغیرہ‘‘۔ شامل ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ مودی کی گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دور کو ابتدا میں میڈیا نے ترقی کے شاندار دور کے طور پر پیش کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شروع میں فائدہ مند نظر آنیوالی پالیسیوں نے در حقیقت گجرات میں غربت، افلاس اور بیروزگاری کو بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا (بحوالہ انڈین ریزروّ بنک کا سروے 2013)۔
بھارت اپنے آپ کو سیکولر ملک کہتا ہے اور یہی سیکولرزم بھارت کی ریاست کی بنیاد اور آئین کی روح ہے۔ لیکن مودی کا ہندوستان اسکے بالکل بر عکس ہے ۔ مودی اور RSS کے بھارت میں سیکولرزم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور انکے بھارت میں ہندو مذہب اور ’’ ہندوتوا‘‘ کے علاوہ کسی مذہب یا گروہ یا اقلیت کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں۔ انکا کا نظریہ ہے کہ کسی دوسرے مذہب یا اقلیت کو بھارت میں قبول نہیں کیا جا سکتا ، ہاں شدید ضرورت کے وقت کسی اقلیت کو اس وقت تک ’’ برداشت ‘‘کیا جائے گا جب تک وہ اپنی اوقات میں رہیں۔ انکا ایک اور اہم نظریہ ’’ معاشرتی ایکتا ‘‘ ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ اقلیتوں کا چاہے جو بھی مذہب ہو وہ نام کی حد تک تو اپنے مذہب سے تعلق رکھ سکتی ہیں لیکن عملی طور پر بھارت میں رہنے والے سب لوگوں کی معاشرت یعنی رہن سہن ایک جیسی ہونی چاہئیے جو کہ ایک ہندو رہن سہن ہو گا۔ ان کیلئے واحد راستہ ’’ ہندو شناخت‘‘ اور واحد منزل ’’ ہندو راشٹرا‘‘ کا قیام ہے۔مودی کا بھارت اپنے ہمسایوں کیساتھ امن کے ساتھ رہنے کی بجائے لڑائی جھگڑا ، دھونس اور زبردستی کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے۔ داخلی طور پر وہ کسی اقلیت کو حقوق دینا تو دور کی بات، وہ انکے ساتھ بات کرنا تک پسند نہیں کرتا۔اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے مودی سرکار مقبوضہ کشمیر ( جسے وہ بھارت کا حصہ کہتے ہیں) کے لوگوں کے ساتھ بھی بات چیت کرنے تک کو تیار نہیں ہے اور انکے پاس ہر کشمیری کی ہر بات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے گولی۔ گزشتہ چند برسوں میں کشمیر کی تحریک آزادی میں جو شعلے نظر آ رہے ہیں ان میں سب سے بڑا ہاتھ مودی جی کی انتہا پسند پالیسیوں کا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی سے شروع ہونے والی داستان بھی ابھی جاری ہے۔ کہیں مساجد شہید کی جا رہی ہیں تو کہیں گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر مسلمانوں کا قتل عام۔ ہر غیر ہندو بھارتی کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ یا اپنا مذہب چھوڑ دو یا بھارت ۔ اصل میں مودی سرکار اور BJPکی پالیسیوں کی بنیاد ’’ سوامی ونایک دامودر‘‘ کے دیے ہوئے نظریے ’’ ہندّتوا ‘‘ پر ہے۔ اس نظریے کیمطابق ایک ’’اکھنڈ بھارت‘‘ صرف ہندوئوں کی اونچی ذاتوں کیلئے ہے۔ نیچی ذات کے ہندوئوں کے کوئی حقوق نہیں ہے اور انکی پیدائش کا مقصد صرف اونچی ذاتوں کی خدمت ہے۔ مودی سرکار کی زیر سرپرستی بھارت کی انتہا پسند تنظیموں RSS اور DSJ کا ٹارگٹ ہے کہ 2021تک بھارت کو کسی بھی ذریعہ سے مسلمانوں سمیت تمام غیر مذاہب سے ’’ پاک‘‘ کر دیا جائے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر مودی حکومت کو جب بھی موقع ملا ہے اس نے اپنے عوام کے مختلف طبقوں میں خود فاصلے اور نفرتیں پیدا کر کے آپس میں لڑا کر خود بھارت کے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ بھارتی معاشرتی نظام اور ریاستی اتحاد کو تباہ کرنے کیلئے جس تیزی اور خوش اسلوبی کے ساتھ مودی جی نے کام کیا ہے میری تو دلی دعا ہے کہ مودی جی کی پارٹی اگلے الیکشن بھی جیت جائے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024