پتھروں میں ہیرا سب سے قیمتی مانا جاتا ہے۔ سونا چاندی جیسی دھاتیں بھی اسکی عظمت کی معترف ہیں۔ ہیرا صرف نام و نمود کا سمبل نہیں ہے، جہاں شاہوں کے گلے کا ہار بنتا ہے وہاں اکڑی ہوئی گردنوں کو توڑ بھی سکتا ہے۔ 1514ء میںترکی کے سلطان باجازت کے بیٹوں نے اسکے کھانے میں ہیروں کا پوڈر ملا کر والد صاحب کو اس دنیا سے رخصت کردیا۔ 1532ء میں ڈاکٹروں نے پوپ کلیمینٹ کواس کے ذریعے طویل علالت سے نجات دلوائی۔ یورپ میں کیتھرائین ، ڈی ۔ میڈ کی کا گھرانہ اس کام کیلئے مشہور تھا۔ یہ ٹونوں ٹوٹکوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسے دافع بلیات سمجھاجاتا تھا۔ (DIAMOND MAGIC) کی اصطلاح شاید زیادہ لوگوں نے نہ سُن رکھی ہو۔ اسے جسم سے مس کرنے سے کئی بلائیں رد ہوتی ہیں۔ منحوس ستارے اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ شیاطین شرارتیں نہیں کرتے۔ جنگیںجیتی جاتی ہیں۔ ہارے ہوئے مقدمات کا پانسہ پلٹا جا سکتا ہے۔ ہندو دیو مالائوںمیں لکھا ہے کہ انسان کی روح جانوروں کے علاوہ جمادات اور نباتات میں بھی منتقل ہو جاتی ہے۔ نیک انسان ہیرے بن جاتے ہیں اور بد روحیں سنگِ راہ جن کو ہر راہگیر ٹھوکریں مارتا ہے۔ قدیم یونانی فلسفی افلاطون کا بھی یہی خیال تھا۔ وہ ہیروں کو ذی روح سمجھتا تھا۔ بعض فلسفیوں کا تو یہ بھی نظریہ ہے کہ پتھر آپس میں شادی کرتے ہیں اور ان کی اولاد پیدا ہوتی ہے۔ اس کو منہ میں رکھنے سے آدمی جھوٹ بولنا بند کر دیتاہے… گویا ہیرا نہ ہوا امرت دھارا ہو گیا۔ جو زندگی سے بھی لے سکتا ہے اور اس کو طوالت بھی بخشتا ہے۔ یہ ایسی جنسِ نایاب ہے جس کو پانے کی خواہش شاہ و گدا رکھتے ہیں۔ صنفِ نازک تو اس پر مر مٹتی ہیں۔ اس کو چُومتی ہیں۔ چاٹتی ہیں۔ گلے لگاتی ہیں۔ حرِزجاں بناتی ہیں۔ ہندومائیتھالوجی میں تو نیک انسان مرنے کے بعد ہیرے بن جاتے ہیں یہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ ہیرا ایک نیک انسان کے قالب میںڈھل گیا ہے…اور وہ ہمارے فواد چودھری صاحب ہیں۔جن کا اب وزارت اطلاعات کا قلمدان تبدیل کردیا گیا ہے عمران خان کے سیاسی خزانے کا نایاب ہیرا…ہو سکتا ہے انہیںتلاش کسی اور نے کیا ہو۔ تراش خراش کسی اور فیکٹری میں ہوئی ہو، لیکن چمک دمک تحریک انصاف میں آ کر آئی ہے۔ رنگ روپ بھی یہیں نکھرا ہے جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خان صاحب مردم شناس نہیں، ٹھیک طرح سے بندوں کو پرکھ نہیں سکتے، انہیں یقیناً شرمندگی محسوس ہو رہی ہو گی۔ ان سے بہتر وزیرکم از کم ہم نے تو نہیں دیکھا۔ اگر ان کا تقابلی جائزہ سابقہ وزراء سے کیاجائے تو یہ منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی…بڑی سہولت کے ساتھ یہ ان سے دو ہاتھ نہیں بلکہ کئی میل آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔ میاںنواز شریف کے وزیر اطلاعات پرویز رشید تھے۔ ان کی واحد خوبی اپنے باس سے وفاداری تھی۔ وفاداری میں استواری پیدا کرنے کیلئے بسااوقات ایسی باتیں بھی کر جاتے تھے ، جن کو ذہن کے زندان میں قید رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ایک دن ترنگ میں آ کرغلیل اور دلیل کاتقابلی جائزہ لے بیٹھے۔
اپنے آپ کو دلیل کے ساتھ نتھی کر لیا۔نتیجتاً غلیل سے جوپتھر پھینکا گیا اس نے ان کی وزارت کو چکنا چُور کر دیا۔ ان کی جاںنشین مریم اورنگ زیب محض اس لیے بچی رہیں کہ وہ عورت ذات تھیں۔ (KNIGHTS) میں (SENSE OF CHIVALRY) بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں بسااوقات نہ چاہتے ہوئے بھی (WEAKER VESSELE) کا احترام کرنا پڑتا ہے۔
فواد چودھری صاحب جس پارٹی میں بھی رہے وہاں ان کو ہمیشہ ASSET گردانا گیا، کبھی بوجھ بن کر نہ رہے۔ انکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی بات یامزاحیہ بیان کو بھی انگریزی ادب کے نامور شخص ڈاکٹر سیموئیل جانسن کی طرح نہایت سنجیدہ لب و لہجے میں ادا کرتے ہیں۔مزاح کی کوئی رمق تک بھی انکے چہرے سے جھلکتی نہیں ہے۔… جب مخالفین نے عمران خان کے بنی گالا تک ہیلی کاپٹر کے استعمال پر اعتراض کیا تو انہوں نے نہایت مدلل انداز میں انہیں باور کرایا کہ اس فلائیٹ پر اٹھنے والے اخراجات چنگ چی رکشہ سے بھی کم ہیں جس پیار، اخلاص اور دھیمے لہجے میں شریف برادران کو مفت مشورہ دے رہے ہیں اس سے تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ چودھری صاحب اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ’’پلی بارگین ‘‘ کر لیں اور لندن میں آرام سے رہیں۔ ساتھ ہی تین سو ارب کی ’’لوٹ ‘‘ کا پہاڑا پڑھنانہیں بھولتے…کوئی شخص اس ستم ظریف سے نہیں پوچھتاکہ تین سو ارب دینے کے بعد تو لندن کے ہائیڈ پارک کی نرم گھاس پر ہی آرام کیا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف کے دل کے عارضہ پر جس ماہرانہ انداز میں گفتگو فرماتے ہیں اس سے کچھ ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہ مصر کے مشہور ڈاکٹر یعقوب مگدی کے ذاتی مشیر رہے ہیں۔ مرض کی جو تشخیص جدید مشینیں نہیں کر سکتیں وہ یہ قیافے اور قیاس سے کر لیتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا …؎
بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اورچاہئے وسعت میرے بیاں کے لیے
شاید یہی وجہ ہے کہ داخلی سیاست کو روندتے، پھلانگتے ہوئے قبلہ عالم خارجہ امور کی طرف نکل گئے ہیں ۔ ملکہ برطانیہ کو قیمتی مشورہ دے ڈالا ہے۔ کوہ نور ہیرا ہماری ملکیت ہے۔ فوراً واپس کر دو…وگرنہ انہوں نے کمال ہشیاری سے خالی جگہ کو پُر کرنے کا مشکل کام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کندھوں پرڈال دیا۔ ایک عام آدمی نے شاید اس ہیرے کا نام تو سُن رکھا ہو مگر اس کی قیمت، اہمیت اور تاریخ کا علم نہ ہو۔ قیمت کے متعلق کہنا تو اتنا ہی کافی ہو گا کہ اس کو فروخت کر کے پچاس لاکھ گھر ار ایک کروڑ نوکریاں آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہیں۔ قانونی راستہ تو بہت پُر پیچ اور دشوار ہوگا، بزور شمشیر بھی اسے سرِدست حاصل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نہ تو وہاں کوئی محمد شاہ رنگیلا حاکم ہے اور نہ پاکستان میں نادر شاہ وارد ہوا ہے۔ اس طرح ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے۔ فواد چودھری صاحب کو برطانیہ بھیجا جائے۔ انکی چکنی چیڑی اور من موہنی باتیں سُن کر ’’شاید کہ وہ شاطر اسی ترکیب سے ہو مات۔‘‘
کوہ نور ہیرا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ سولہویں صدی میں مغل بادشاہ بابر نے اسے مالوہ کے راجوں سے چھینا تھا۔ یہ مغل بادشاہوں کے پاس نسل در نسل رہا۔ ہمایوں، اکبر اور جہانگیر سے ہوتا ہوا شاہجہان کے پاس پہنچا تو تختِ طائوس میں جڑ دیا گیا۔ نادر شاہ نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو مغل حمیت کے ساتھ ساتھ انکی دولت بھی لوٹ کر لے گیا۔ جب افغانستان میں قتل ہوا تو اس کا باڈی گارڈ اسے چھپا کر واپس ہندوستان لے آیا۔ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تک پہنچ گیا۔ جب سکھوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کو بطور تاوان لے لیا۔ کمپنی نے ملکہ وکٹوریا کوتحفتاً پیش کیا۔ اس وقت اس کا وزن 1986 قراط تھا۔ بعد میں کاٹ کر 108.93 قراط میں تبدیل کر دیا گیا۔ ملکہ الزبتھ نے اپنی تاجپوشی کے وقت اسکو استعمال کیا۔ آجکل نمائش کیلئے اسے ٹاور آف لندن میں رکھا گیا ہے جس کثیر تعداد میں سیاح اسے دیکھنے جاتے ہیں اس سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ اپنی قیمت ٹکٹوں کی صورت میں نکال لے گا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے، فواد چودھری صاحب اسے واپس لا سکتے ہیں۔ ڈر صرف ایک بات کا ہے ۔ انگریز بڑا شاطر اور کائیاں ہے۔ یہ نہ ہو کہ انہیں بھی ’’انٹیک‘‘ سمجھ کر ٹاور میں رکھ لے۔ دونوں جگمگ کرتے ہوئے ہیروں کے نیچے یہ تحریر لکھی ہو۔ ’’پاکستان کی طرف سے۔ شکریہ کے ساتھ! دو انمول ہیرے! کوہِ نور اور شعلہِ طور!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024