چند سال پہلے تربت میں مقیم ایک پنجابی جو پیشے کے لحاظ سے حجام تھا اور پچھلے پینتیس چالیس سال سے تربت جیسے چھوٹے قصبے میں وہاں کے مقامی اور غیر مقامیوں سے اچھی طرح متعارف تھا۔ اس کا نام محمد ارشد ولد محمد حسین تھا اور جب سے نفرت کے بیج بو دیئے گئے اور چند غداروں نے بھارت کے ہاتھوں پر بیعت کر لی ا ور بلوچستان کے امن کو دشمن کی نظر لگ گئی تو محمد ارشد کو بڑی سفاکی سے شہید کر دیا گیا۔ جب اس کی میت اس کے آبائی قصبہ میترانوالی پہنچی تو علاقے بھر کے لوگوں کے دلوں میں رنج و الم بھر گیا اور ہر شخص ایک دوسرے سے یہ پوچھ رہا تھا کہ چالیس سال تک تربت شہر میں لوگوں کی خدمات سرانجام دینے والے کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا ہے اس کا وہ یقینا حقدار نہ تھا۔ اسکے جرائم کی فہرست طویل نہ تھی بس ایک ہی جرم کافی تھا کہ اس کا شناختی کارڈ اسے پنجابی ثابت کرتا تھا۔قارئین! گذشتہ روز پھر ایک شہید کی میت بلوچستان سے میترانوالی لائی گئی یہ نوجوان ہارون مسیح ہے جو پچھلے پانچ سال سے پاکستان نیوی میں خدمات سرانجام دے رہا تھا اور وہ ہمارے دوست محبوب مسیح کا بیٹا تھا جسے پاکستانی فوج اور نیوی کے دوسرے ساتھیوں سمیت کوسٹل ہائی وے پر باقاعدہ شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ میں پاکستانی فوج کے چودہ جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ گذشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس ٹاک کے ذریعے قوم کوبتایا کہ ان چودہ شہداء کے قاتل ایک علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جو دن دیہاڑے پاک ایران بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل ہوئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دوست اور ہمسایہ ملک ایران نے اس علیحدگی پسند تنظیم کو کیونکر اپنی سرزمین پر تربیتی کیمپس بنانے کی اجازت دی ہوئی ہے جبکہ آج سے دو سال پہلے گرفتا رہونے والے بھارتی ’’را‘‘ کے آفیسر کلبھوشن یادیو جس نے بلوچستان کے اندر ایک پورا نیٹ ورک بنا رکھا تھا ، اس کے پاسپورٹ کے مطابق وہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں مستقل رہائش پذیر تھا۔قارئین! چاہ بہار کا منصوبہ جس پر ہمارے دشمن بھارت نے چالیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری چاہ بہار منصوبے سی پیک اور گوادر کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کررکھی ہے۔ اس سے بھی ایک سال پہلے لیاری کے بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ اور مافیا باس عمیر بلوچ کو جب گرفتار کیا گیا تو اس سے ایرانی پاسپورٹ برآمد ہوا ۔ پاکستان کے اندر مذہبی اور مسلکی شورش کے ڈانڈے بھی اسی سرحد کے پار سے ملتے ہیں۔ عراق، شام ، یمن، افغانستان، لیبیا اور بحرین جہاں پر ہونے والی مسلکی لڑائیوں نے ان ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے کبھی حزب اللہ اور کبھی داعش کے نام پر ہونے والی ان سازشوں نے اب تک دس ملین مسلمانوں کو لقمۂ اجل بنا دیا ہے۔ یہ سبھی وہ ممالک ہیں جو ترقی اور جدت میں پاکستان سے کہیں آگے تھے مگر آج فرقہ پرستی کی آگٖ میں بھسم ہو کر رہ گئے ہیں۔اب ہمارے دشمن کئی سالوں سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو بھی اس کھیل کا حصہ بنا کر خدانخواستہ تباہ و برباد کر دیاجائے۔ دراصل پاکستان کے بڑے مسلک شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمیں کسی دوسرے ملک کی مذہبی اور مسلکی تسکین کیلئے خود کو جہنم کا تندور نہیں بنانا۔ گذشتہ دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور آج وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خصوصی طور پر ایران کا دورہ کیا ہے۔ یقینا اس دورے کے بنیادی پہلوئوں میں سے ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ ایران کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پاکستان کی سالمیت خود ایران کے اپنے مفاد میں ہے جبکہ بھارت کا ایران سے عشق پاکستان دشمنی پر منحصر ہے۔ پاکستان میں موجود فرہنگِ ایرانی کے مشن شاید اپنی حکومت کو یہ بتانا پسند کرینگے کہ اگر انہیں پاکستان سے کوئی شکوہ شکایت ہے تو اسے باہمی گفتگو و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو سُنی ،وہابی، دیوبندی اور شیعہ مسلک کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے خواب دیکھنے والے شاید کسی اور صدی میں جی رہے ہیں۔ قارئین ! گذشتہ روز سانحہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والی ایک خاتون کی بیٹی چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ کے آفس کے باہر گھنٹوں بیٹھی مگر شنوائی نہ ہوسکی۔ پھر اسکے اگلے روز ہی ایک اور عدالت نے سانحہ ماڈل ٹائون پر احتجاج کرنیوالے ایک سو سات سے زائد افراد کو سات سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ یوں سانحہ ماڈل ٹائون میں چودہ شہداء سو سے زائد شدید زخمی اور اب ایک سو سات افراد کو سزا سنا کر ہمارے ملک کے منصفوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس وطن عزیز میں طاقتور کیلئے پیمانۂ انصاف اور ہے جبکہ غریب اور بے کس کیلئے پیمانۂ عدل کچھ اور ہے۔قارئین! میں جب طاہرالقادری صاحب کا پرسنل پولیٹکل سیکرٹری تھا تو میں نے انہیں انصاف کے حصول کے کچھ گُر اور طریقے بتانے کی اپنی سی سعی کی اور جہاں جہاں انہوں نے میرے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کروایا تاریخ گواہ ہے وہیں ان کو مثبت نتائج ملے۔ مجھے آج بھی سانحہ ماڈل ٹائون کے لواحقین سے ہمدردی ہے مگر انصاف کے حصول کیلئے جو رستہ چنا گیا اس میں تصحیح کی شاید گنجائش تھی۔ سزائیں سنائے جانے والوں میں ڈاکٹر صاحب خود بھی شامل ہیں۔ گذشتہ روز ڈاکٹر صاحب کا ایک آڈیو پیغام سننے کو ملا،لفاظی اور خطابت کے اعتبار سے ایک پرفیکٹ پیغام تھا مگر خود ڈاکٹر صاحب کی رُندھی ہوئی آواز اس بات کی غماز تھی کہ خود انہیں انصاف کے حصول کی کچھ زیادہ توقعات نہیں ۔ مگر اللہ رب العزت کا بھی ایک قانون ہے اگر ایک کامیاب حکمتِ عملی اپنائی جائے تو اس سانحہ کے متاثرین کو انصاف مل سکتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024