بین الاقوامی بساط،پاکستان اور مسلم دنیا(1)
خلافت عثمانیہ کا زوال تو پہلی جنگ عظیم ہیں (1915-19)سے پہلے ہو گیا اس میں یورپ برطانیہ اور امریکہ پیش پیش ر ہے ترکی کو یورپ کا مرد بیمار ٹھہرایا گیامگر اصل وجہ اندرونی اقتدار کی جنگ تھی ۔امریکہ پہلی بار اپنی سرحدات اور مفادات کی حفاظت کے لیے اپنے ملک سے باہر آیا دراصل 19سویں صدی کے آخر میں برطانیہ اور یورپ کے نوآبادیاتی ممالک سب ہی کسی نہ کسی شکل میں آزادی کی تحریکیں جنم لے رہی تھیں افریقہ ۔مشرق وسطیٰ ۔مشرقی بعید اور ہندوستان بدلتی عالمی سیاست میں اپنے کردار اور حصول آزادی کے لیے سیاسی اور سماجی سطح پر اپنی اپنی صف بندی میں مصروف ہوگئے ۔جرمنی اٹلی اور جاپان کی شکست نے عالمی طاقتوں کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دینا لازم ہو گیا برطانیہ اور یورپ ایشیاافریقہ اور مشرقی وسطےٰ اور ہندوستان میں اپنی اپنی کالوینوں کی آزادی کا سوچنے لگے اور جزوی طور پر ان ممالک کے لوگوں کو بنیادی حقوق کی بات چیت چل پڑی ۔کچھ قانون سازی بھی ہونے لگی ۔حکومتی نظام میں کچھ حصہ مقامی نمائندگی کے طور پر طے ہونا شروع ہوا اور ساتھ ہی آنے والے وقت میں آزاد ہونے والے ممالک کو اپنے اپنے مفادات کے تحت رکھنا بھی مدِنظر رکھا گیا ۔پاکستان میں ہمارے ہاں 1919-1909اور 1935کے قوانین نافذ ہوئے مگر اس دوران دوسری جنگ عظیم 1939-45ہوگئی ۔پہلی عالمی جنگ اور دوسری کے دوران امریکی اثرورسوخ دنیا کے معاملات میں خاصا بڑھ گیا ۔یورپ کی تباہی سے بحالی کے لیے مارشل پلان دیا جو معاشی طور ان کو بحال کر نا مقصد تھا ۔جرمنی جاپان اٹلی اور روس کو خاصا جانی اور مالی نقصان ہوا ۔جاپان پر ہتھیار ڈالنے کے بعد ایٹم بم پھینکا گیا امریکی بم نے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں لاکھوں زندگیوں کو نگل لیا ۔دنیا نئی ایجاد سے روشناس ہوئی امریکہ اسلحہ اور بارود کا بڑا سوداگر بن گیا اور اب بھی اس کی معیشت کا دارومداد اسلحہ سازی پر اور مسلم دنیا کے وسائل کی لوٹ مارپر ہے جرمنی میں ہٹلر کی حکومت جرمن شہریوں اور جائیداد کو بے پناہ نقصان ہوا۔روس میں 1917میں کیمونسیٹ انقلاب آیا اور اس طرح روسی بلاک کی بنیاد رکھ دی گئی اور سوشلزم کا پرچار شروع ہو گیا ۔ادھر امریکہ نے اپنے اتحادیوں میں گروہ بندی کے ذریعے آزاد معشیت Laisis fairکی بنیاد کو مضبوط کرنا شروع کر دیا ۔سنٹرل ایشین ریاستیں اور مشرقی یورپ روس کے زیر اثر آگے جبکہ امریکہ باقی دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگا ۔روس کے نظریاتی اثرات جنوبی امریکہ افریقہ اور دنیا کے دوسرے ممالک پر مرتب ہونے لگے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کا دور شروع ہو گیا ۔جاپان امریکی اثر میں آگیا جبکہ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوا روس امریکہ کے درمیان اور اسرائیلی ریاست جو پہلی جنگ عظیم کے بعد خدوخال تھے 1949میں معرض وجود بڑی طاقتوں کے منصوبے میں قائم ہوگئی فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے اسرائیلی حکمرانوں نے بے گناہ شہریو ں کو گولیوں سے بھوننا شروع کر دیا اور یہ آجکل یہ معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے یوں اس کے بھی مقاصد ہیں ۔مسلم دنیا کی تباہی اسی طرح 1947میں پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے تو بہت سے دیگر مسائل اور معاملات جو متنازعہ ٹھہرے برطانیہ نے کشمیر کو متنازعہ بنانے کی خاطر Redclffایوارڈ کے ذریعہ ضلع گوداسپور ہندوستا ن کو دے دیا اس طرح کشمیر جسے پاکستان نے شہ رگ قرار دیا اور ہے بھی ۔نئی غلامی میں داخل ہو گیا ایک حصہ پاکستان کے پاس ہے اور مقبوضہ کشمیر تاریخی خون ریزی کا مرکز بن چکا ۔بھارت کشمیر میں 49ڈیم بنا کر جنرل ایوب کے سندھ طاس معاہدے کو منہ چڑھا رہا ہے اور کشمیریوں کا قتل عام معمول کی بات ہے دوسال سے بشیروانی کی تحریک نے تحریک آزادی میں نئی جان ڈال دی ہے مگر عالمی بے ضمیری عیاں ہے نہ مسلم ممالک کی OICنہ عرب لیگ نہ اقوام متحدہ سب عضو معطل ہیں ۔فلسطین میں آگ و خون کا کھیل اسرائیل نے جاری رکھا ہوا ہے بے گناہ شہری قتل ہو رہے ہیں اور کسی کو پرواہ نہیں مسلم دنیا کئی سالوں عالمی طاقتوں کے نرغے میں ہے۔برما۔ بوسنیا۔افغانستان عراق لیبیا اور اب شام میں روس اور امریکہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں معصوم بچوں عورتوں اور شہریوں کو خون میں نہلارہے ہیں ۔سعودی عرب اور یمن کے تنازعہ میں انسانوں کی تباہی بھی نشان عبرت ہے جبکہ ایران عراق اس سے قبل جنگ میں انسانی تباہی کے مناظر پیش کر چکے ہیں ۔امریکہ اور عراق کے بعد افغانستان میں جو تباہی مچاہی اور وہ طالبان جو جہادی VIPتھے چُن چُن کر قتل کیے گئے عراق میں تباہی پھیلانے والے اسلحہ کو بہانہ بنایا گیا حملہ کرنے کے لیے مگر اقوام متحدہ کے انسپکٹرز نے ایسی کسی اسلحہ کی موجودگی کو نہ ہونا قرار دیااب شام میں کیمیکل کے استعمال کے الزام میں امریکہ برطانیہ اور یورپ نے شام پر سینکڑوں میزائل داغ دیئے جبکہ غوطہ کے علاقے میں حملہ کے دن معائنہ ٹیم نے آنا تھا ۔پاکستان نے جنرل ضیاالحق کے جہاد میں امریکہ سے ملکر روس کے خلاف جو جنگ لڑی اس میں پاکستان کے اندر امریکی اثرورسوخ اور کلاشنکوف کلچر،ہیروین کے ساتھ ساتھ 30لاکھ افغا ن مہاجرین بھی تحفے میں ملے جو اب پاکستان میں تخریب کاری ۔دہشت گردی اور دیگر مسائل پیدا کر رہے ہیں اور امریکی جنگ اب بھی جاری ہے اور پاکستان نے اب تک 70ہزار سے زائد شہری اور 10ہزار کے قریب فوجیوں کی قربانی دی ۔100ارب ڈالرسے زیادہ معاشی مالی نقصان اٹھایا ۔اور وصول کیے 20ارب ڈالر جس کا طعنہ اب صدر ٹرمپ دے رہا ہے اور ہم بھیگی بلی کی طرح خود کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ہمارے حکمران اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کی ترجیحات میں اب بھی ملکی اور قومی مفادات سے عاری نظر آتے ہیں ۔ (جاری ہے)
سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان بغداد PACT سے لیکر CENTO-SEATOاور NATOاتحادی ہونے کے باوجود رسوا ہو رہا ہے آخر کیوں ؟وجہ سب جانتے ہیں آج قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور معاشی بدحالی اور کرپشن ۔قرضوں کی معشیت وہ مقاملات میں ہے جن کی وجہ سے نہ شہریوں کی زندگی اور عزت محفوظ اور نہ ہی قومی وقار ۔NATO،اتحادی وزیراعظم خاقان عباسی کے ساتھ امریکی ائیر پورٹ پر بدترین سلوک کو حقائق جاننے کے لیے کافی ہے ترجیحات بے معنی ہیں ۔آجکل امریکہ پاکستان کے امریکہ میں سفارت کاروں پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کر رہا ہے کیونکہ پاکستان نے امریکی ڈیفنس ایٹیجی کے اسلام آباد میں موٹر سائیکل پر سوار دو شہریوں کو سرخ سگنل کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی گاڑی ٹکرائی جس سے ایک ہلاک ہوا اور دوسرا شدید زخمی پولیس کو کئی دن گزرنے کے باوجود سفارت خانہ رسائی نہیں دے رہا جبکہ ان کے ہاں اگر ہو تو جینوا کنونشن بے ثبات ٹھہرائے جاتے ہیں اور ایسا ہو چکا ۔دراصل امریکہ یا کوئی اور اپنی طاقت کے نشے میں کمزور ممالک خاص کر جن کے حکمران قومی وقار اور مفاد کے منافی اپنے اقتدار کو اہمیت دیتے ہیں ان کی عوام کو اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔گو کہ Leadership Crisisپوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہے مگر پاکستان ایک ایٹمی قوت ہو کر جب گداگری کا عالمی ریکارڈ توڑے گا توشرمندگی قوم کو ہی اٹھانی پڑے گی ہم نے بے پناہ نقصان کر کے بھی غیر اہم ہے سعودی عرب اور عرب امارات امریکہ اسرائیل اور بھارت پر اربوں ڈالر نچھاور رہے ہیں شہزادہ بن سلیمان سعودی عرب کے اندر ایک نئے معاشرے کی تشکیل دے رہا ہے اور اس میں صدر ٹرمپ کے داماد کا دوست ہے اس طرح امریکہ کے گھر کا فرد ہمارے بھی بہت سے حسین حقانی سمیت غلامی کو آزادی کا نام دیتے ہیں ۔مسلم ممالک میں روس کی 1989/90میں شکست و ریخت کے بعد اور Twin Tower-9/11کی تباہی کے دنیا امریکہ کی Uni polarحثیت میں نئے مشکل دور سے گزر رہی ہے ۔دونوں روس اور امریکہ میں 1945کے سرد جنگ شروع ہوئی اور ایک Detanteتھا مگر لیگ آف نیشن نے پہلی جنگ عظیم کے بعد اور اقوام متحدہ دوسری جنگ کے بعد مسلم دنیا کے مفاد کے خلاف مشرقی بعید اور افریقہ میں دو مسلم ممالک میں سے نئے ملک بنانے جبکہ یورپ میں جرمنی دوبارہ متحدکر دیا گیا ۔اب مسلم ممالک جن میں پاکستان اور ترکی خاص طور پر شامل اندورنی خلفشار اور ملک توڑنے کی سازشیں عروج پر ہیں ۔ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت تو ناکام ہوئی مگر امریکہ اب بھی دانت پیس رہا ہے ۔بلوچستان اور فاٹا اس کی زد میں ہیں بھارت اسرائیل امریکہ گٹھ جوڑ اور موجودہ حالات امریکی صدر ٹرمپ کے بھارت کو Stragic Pantnerبنانے اور پاکستان کو بھارت کا مطیح بنانے پر تُلا ہوا ہے جو شاید خواب ہی رہے گا بہرحال دنیا کو تیسری جنگ کے خوفناک مستقبل کا سامنا ہے شاید اب کہ جنگ کا مرکز محور مسلم دنیا ہی ہے جس کا 9/11کے ساتھ اعلانیہ صلیبی جنگوں کا عندیہ دیا گیا مسلم دنیا کو 9/11کے بعد ہو ا معاشی سیاسی اور اقتصادی طور پر تبا ہ کر دیا گیا اور ان کے دفاعی نظام کو جو مصر ۔شام ۔عراق ۔لیبیااور دیگر میں تھا مفلوج کر دیا گیا ا ب ترکی ایران اور پاکستان پر نظر ہے ۔ترکی نے تو 15/20سال میں اپنی معشیت ۔دفاع ۔اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مثبت ترقی کی جبکہ پاکستان اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے سے محروم ہوا ناقص خارجہ پالیسی اقتصادی اور معاشی پالیسیاں ایک طرف تو دوسری طرف آئینی اور قانونی زیر وبم ریاست کی چولوں کو کمزور کر تے رہے رہی سہی کسر ہمارے مفاد پرست ۔بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں نے پوری کردی ۔آج بھی وہ تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں خود اور عوام کو ایک فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔
مسلم دنیا کو مذہبی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کے ایران ۔سعودی عرب ۔مصر ۔پاکستان ترکی اور بہت سے دیگر ممالک اندرونی تفریق اور عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں اس میں نئے مسائل القاعدہ ۔طالبان اورداعش نے پیدا کر دیئے ہیں گو کہ ان کی بنیاد بھی امریکہ اور یورپی ممالک نے اپنے مفادات اور اپنی Hegomonyقائم کرنے کے لیے رکھی ۔پاکستان افغانستان ۔شام ۔عراق ۔مصر اور دیگر اس کی زد میں ہیں مگر جنہوں نے یہ جِن بوتل سے برآمد کیا اب وہ بھی اس کی گرمی اورحدت محسوس کر رہے ہیں ۔بہرحال جو بھی ہو آخر کار مسلمان اور اسلام نشانے پر ہے ۔صییونی اور عیسائی طاقتیں اب ہنود کے ساتھ ملکر دنیا کا توازن درہم برہم کرنے کے درپہ ہیں ۔مسلم دنیا کا مستقبل کیا ہے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیا ترکی پاکستان ایران کسی اتحاد پر راضی ہو سکتے ہیں یا پھر امریکی چینی روسی چھتری کے نیچے ہی رہ کر بین الاقوامی بساط پر مہرے بن کرپٹتے رہیں گے ۔اگرکبھی غیرت ملی جاگ گئی اور اتحاد و اتفاق کا فلسفہ کار فرما ہو گیا تو تیسری جنگ سے شاید بچ جائیں گے وگرنہ تینوں ممالک اغیار کے نشانے پر ہیں ۔ماضی سے سبق سیکھ لیکر حال کا اہتمام اور انصرام اور مستقبل کی پیش بندی ہمیشہ سے افراد اور قوموں کی زندگی کو استحکام اور ترقی کا زینہ مہیا کرتی ہے اور یہی ہماری مسلم دنیا کی بقا او ر سلامتی کا واحد راستہ ہے ۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا ذرا غور کریں !
ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ ِمصطفوی سے شراربو لبہی ۔