فاروق عبداللہ کا اعتراف جرم
کشمیر میں بھارت کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلی فاروق عبداللہ کہتے ہیں ہم نہ بھارت کے غلام ہیں اورنہ ہی نوکرہیں،اپنے والد شیخ عبداللہ کی برسی کے موقع پر نیشنل کانفرنس کے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ 70 سالوں سے کشمیرکامسئلہ حل نہیں کیا جا سکاانہوں نے کہا لائن آف کنٹرول کو امن کی لائن میں تبدیل کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات کرنے چاہئیں کیونکہ اس مسئلے کا مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔انہوں نے نئی دلی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت کے غلام ہیں نہ ہی نوکر ہیں۔نیشنل کانفرنس کے سربراہ نے مزید کہا کہ بھارت کشمیریوں کے دل و دماغ جیتنے میں ناکام رہا ہے، اگر بھارت سونے کی سڑکیں بھی بنا دے تو کشمیریوں کے دل نہیں بدل سکتا۔ بہت دیر کے بعد فاروق عبداللہ کو حقیقت کاا دراک ہوا کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
فاروق عبداللہ کے تازہ ارشادات کے تناظر میں کشمیر میں شیخ خاندان کے کر دار پر ایک پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس خاندان نے کشمیریوں کے اعتماد کو کس طرح اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا تفصل کچھ اس طرح ہے فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ جو شیر کشمیر بھی کہلاتے رہے ‘ سیاست میں شیخ عبداللہ کا نام پہلی مرتبہ 1931 میں سننے میں آتا ہے۔
1932 میں میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ اور شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس قائم کی۔ مرزاافضل بیگ، بخشی غلام محمد ، جی ایم صادق اور جموں سے چوہدری غلام عباس شامل ہوئے شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے صدر بن گئے۔شیخ عبداللہ کے حامی انکو ''شیر کشمیر'' کہا کرتے تھے جبکہ میر واعظ کے حامیوں کو ''بکری'' کہہ کر پکارتے تھے۔
1933 میں شیخ عبداللہ نے بہت امیر گھرانے میں شادی کرلی۔ انکی بیگم اکبر جان ناڈو ہوٹل چین کے مالک کی بیٹی تھی ۔کہا جاتا ہے بہت جلداس شادی اور احمدی فرقہ کے بڑے کاروباری لوگوں سے تعلقات کی وجہ سے شیخ عبداللہ کا شمار کشمیر کے امیرترین لوگوں میں ہونے لگا۔ 1938 میں شیخ عبداللہ کی ملاقات جواہر لعل نہرو سے ہوئی۔ شیخ عبداللہ نہرو سے بہت متاثر ہوئے اور سیکولر نظریات اختیار کرلیے ۔ 1939 میں شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کا نام تبدیل کرکے نیشنل کانفرنس رکھ دیا۔
میرواعظ مولوی یوسف شاہ اور چوہدری غلام عبا س نے1941 میں مسلم کانفرنس کو بحال کردیا۔ اسکے بعد یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف بن گئیں۔ دونوں میں تلخیاں بہت بڑھنے لگیں تو دونوں کے کچھ رہنمائوں نے قائد اعظم سے انکے درمیان مصالحت کروانے کی درخواست کی۔ اس مقصد کے لئے قائداعظم 1944 میں کشمیر تشریف لائے اور دونوں پارٹیوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں قائد اعظم نے شیخ عبداللہ کے بارے رائے قائم کی کہ یہ شخص دوغلی بات کرتا ہے اور قطعی قابل اعتبار نہیں۔قائد اعظم نے سارا وزن مسلم کانفرنس کی طر ف ڈال دیا اور فرمایا کہ مسلم کانفرنس کشمیر میں مسلم لیگ کی نمائندگی کرے گی۔
1946 میں شیخ عبداللہ نے ''کشمیر چھوڑدو'' کی تحریک شروع کردی ۔انکا کہنا تھا کہ ڈوگرہ راجہ نے 75 ہزار روپے میں انگریزوں سے کشمیر خریدنے کا جو معاہد ہ کیا تھا وہ غیر قانونی تھا اوراسکو ختم کردیا جائے۔ راجہ ہری سنگھ کی حکومت نے شیخ عبداللہ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ اس پر خاصے ہنگامے ہوئے لیکن نہرو کی کوششوں کے باوجوود نہ چھوڑاگیا۔
1947 میں تقسیم ہند کااعلان ہوا توریاستوں کواختیاردیا گیاکہ وہ پاکستان میں شامل ہوں،ہندوستان میں شامل ہوں یاآزاد رہیں۔ ماونٹ بیٹن اور نہرو کی شدید خواہش تھی کہ جموں کشمیر کی ریاست ہندوستان میں شامل ہو اورمسلمانوں کی اکثریت کے حامل ڈسٹرکٹ گورداسپورکوہندوستان میں شامل کروایا تاکہ ہندوستان کی ریاست میں داخل ہونیکا زمینی راستہ مل سکے
ہندوڈوگرہ راجہ ہری سنگھ کے دل میں آزاد ریاست بنانے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن جب مختلف دباکے تحت اسکو ہندوستان سیالحاق کرنے پر مجبور کردیا گیاتوخطرہ تھا کہ کشمیر میں اسکا شدید ردِ عمل ہوگا ۔ اس موقع پر نہرو نے شیخ عبداللہ کی کشمیر میں مقبولیت کا فائدہ اٹھایا اور اسکو ریاست جموں کشمیرکاوزیراعلیٰ بنوادیا۔ شیخ عبداللہ نے کسی حد تک عوام کے جذبات پر یہ کہہ کر قابو پالیا کہ یہ مکمل آزادی کی طرف پہلا قدم ہے
1953 میں نہرو حکومت نے شیخ عبداللہ پر کشمیرکو ہندوستان سے الگ کرنے کی ساز ش کا الزام لگا کربرطرف کردیا اور جیل میں ڈال دیا۔ 1955 میں شیخ عبداللہ کے دستِ راست مرزا افضل بیگ نے Plebesite Front قائم کیا کشمیر میں اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کا مطالبہ کیا لیکن عوام کو ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد ریاست جموں کشمیر کا آپشن بھی دیا جائے۔1958 میں شیخ عبداللہ رہا ہوا تو اس نے Plebesite Front کے مطالبے کے لئے جدوجہد شروع کردی۔ اسکو ایک بار پھر گرفتارکیا گیااور پاکستان کے ساتھ سازش کرنے کے الزام لگا کر ''کشمیر سازش کیس'' بنا کر مقدمہ چلایا گیا ۔ یہ مقدمہ کئی سال چلتا رہا۔1964 میں کشمیر میں موئے مبارک کی چوری کی ناپاک واردات کے بعد حالات خراب ہوئے تو شیخ عبداللہ کو پھر چھوڑ دیا گیا اور اسکو بات چیت کے لئے پاکستان بھیجا گیا ۔ پاکستان میں شیخ عبداللہ نے صدر ایوب کو ہندوستان پاکستان اور کشمیر کی کنفیڈریشن بنانے کی تجویز دی۔ جسکو ایوب خان نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اگر یہ ہی کرنا تھا تو دوقومی نظریہ اورپارٹیشن کی کیا ضرورت تھی۔ شیخ عبداللہ نے صدر ایوب کونہر و سے کشمیر پر بات جیت کیلئے دہلی جانے کیلئے راضی کرلیالیکن شیخ عبداللہ ابھی واپس ہندوستان نہ پہنچے تھے کہ نہرو کا انتقال ہوگیا اور یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 1965 میں ہندوستان نے شیخ عبداللہ کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی ۔شیخ عبداللہ نے حج کیا ۔ برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا اور کئی اسلامی ملکوں کا بھی دورہ کیا۔ الجیریا میں چین کے وزیراعظم چو این لائی جو اس وقت ایفروایشین کانفرنس کے لئے وہاں موجود تھے انکی ملاقات ہوگئی۔ یہ بات حکومت ہندوستان کے لئے ناقابل برداشت تھی کیونکہ 1962 میں چین کے ہاتھوں شکست کے بعد چین سے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
شیخ عبداللہ کو واپس پھر 3 سال کے لئے قید کردیاگیا۔ رہا ہونے کے بعد پھر Plebesite Front کے پلیٹ فارم سے سیاست جاری رہی لیکن 1971 کے بعد حکومت کے ساتھ مفاہمت کے لئے بات چیت شروع کردی۔ جس کا نتیجہ 1974 کے اندرا عبداللہ معاہدہ کی صورت میں نکلا۔ اسکے تحت شیخ عبداللہ نے الگ کشمیر کے ریفرنڈم کے مطالبے سے دستبردار ہونیکااعلان کیا اورپھر1975 سے 1982 تک وزیر اعلیٰ رہے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے شیخ عبداللہ ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ راجوں کی جگہ اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس میں تو کامیاب نہیں ہوا لیکن پاکستان دشمنی کی وجہ سے اسکے خاندان کو نہرو خاندان اور کانگریس کی حمایت حاصل رہی جس کی وجہ سے نہ صرف وہ خود دومرتبہ وزیر اعلیٰ بنا بلکہ اس کا بیٹا فاروق عبداللہ اور اس کا پوتا عمرعبداللہ بھی ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلی بنے ۔ صاف ظاہر ہے شیخ عبداللہ کی ساری سیاست اقتدار کے لئے تھی اور مسلمانوں کی بھلائی سے کوئی سروکار نہ تھا۔مفکرین کہتے ہیں شیخ عبداللہ مسلمانوں کا غدار تھا۔ اسکی ساری سیاست اپنے اقتدار کیلئے تھی۔ اگر وہ
مسلمانوں کے لئے مخلص ہوتا اور قائد اعظم اور مسلم لیگ پر اعتماد کرتا تو شاید کشمیر کا مسئلہ 1947میں ہی حل ہوجاتا۔ مگر میں چاہوں گی کہ مرزا غالب کی پوری غزل شیخ خاندان کی عزام کی نذر کردوں
جس کا مطلع ہے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا