سید ظہور شاہ ہاشمی بلوچی زبان و ادب کا روشن ستارہ
دنیا میں کم لوگوںکو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ قبل مرگ بھی اتنا کام کرجاتے ہیں کہ انکی کمی لمبے عرصے تک محسوس نہیں ہوتی اور وہ اپنے لوگوں کی رہنمائی سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ بلوچی زبان و ادب کی دنیا میں بھی ایک ستارہ نمودارہوا جنہوں نے بلوچی زبان و ادب میں کم وقت میں بہت سارے تاریخی کام ا نجام دئیے۔ یہ مرد قلندر ’’سید ظہورہاشمی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سید ہاشمی کا شمار بلوچی زبان کے صف اول کے شعراء و ادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے پوری زندگی بلوچی زبان و ادب کی نذر کی اور اپنی صحت‘ خاندان اور ذات سے بڑھ کر بلوچی زبان کا خیال رکھا۔ سید ظہور شاہ ہاشمی بلوچستان کے تاریخی ساحلی بندرگاہ گوادر میں 21 اپریل 1926ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد محترم کا نام سید محمد شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی کیونکہ انکے والدمحترم خود ایک عالم اور علم دوست انسان تھے۔ بعدازاں انہوں نے سعدیہ اسکول گوادرمیں مزید تعلیم حاصل کی۔ گوادر اس وقت سلطنت آف عمان کی عملداری میں تھا۔ اسی لئے اسکولوں میں عربی کی تعلیم لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی تھی۔ اسی بناء پر سید کو فارسی کے ساتھ عربی زبان پر بھی عبور حاصل ہوا۔
بقول سید ہاشمی کے کہ والد صاحب کی علم دوستی کی وجہ سے ان میں حافظ‘ اقبال اور سعدی کوپڑھنے کاشوق اور رغبت پیدا ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوںنے تیرہ چودہ سال کی عمرمیں اردو میں شعر کہنے کی کوشش کی۔ سید بچپن ہی سے نہایت ذہین تھے اورلگن‘ ذہانت وشوق نے انہیں ادیب بنایا‘ شروع میں سید نے فارسی میں بھی شعر کہے تھے۔
اسکول کی تعلیم سے فراغت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے وہ کراچی آئے۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان کراچی نے بلوچی زبان میں نشریات کاآغازکیا تو سید ہاشمی بلوچی زبان سے رغبت اورمعاشی معاملات کی خاطراس ادارہ سے منسلک ہوگئے اور بلوچی پروگراموںکے پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنالوہا منوایا۔ سیاسی اور سماجی میدان میں سید خاصا فعال رہا۔ اسی نسبت سے انہوں نے 1948ء میں گوادر میں ’’انجمن اصلاح بلوچاں‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی اور اس کے ساتھ ہی عوام کو اپنی حقوق کی آگہی کی خاطر ایک رسالہ کا اجراء بھی کیا جس میں بلوچوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کو اجاگرکیا جاتا تھا۔ اس عمل کی پاداش میں ہی سلطان قابوس آف عمان نے آپ کو پس زندان کردیا بعدازاں علاقہ بدر کیاگیا‘ علاقہ بدری میں بھی وہ مصروف جہد رہے اور انہی دنوں بلوچ ادیبوں کے ایک ادبی حلقے کے تحت بلوچی مشاعروں کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ یہ 1950ء کا دورتھا کہ انہی مشاعروں میں سید نے کسی بلوچی مشاعرہ میں اپنی پہلی بلوچی نظم پیش کی۔ بلوچی زبان و ادب کے حوالہ سے کراچی میں ایک ادبی تنظیم ’’بلوچی ء زبان ء سرچمگ‘‘ کے نام سے بنائی اور خود اس کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے۔
1954ء میں بلوچستان کے دورے پرنکلے اور مالی وسائل کے سلسلے میں ادبی اور علم دوست شخصیات سے ملے اگر چہ اس دورے میں فنڈ جمع نہ ہوسکا‘ لیکن بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ ادیبوں اور شعراء سے شناسائی حاصل ہوئی۔ کراچی لوٹ آنے کے بعد بدقسمتی سے انجمن کے کارکنوں میں شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ ان اختلافات سے سید صاحب بڑے بددل ہوئے اور وہ کراچی سے خلیج منتقل ہوگئے۔ اسی دوران انہیں ٹی بی جیسا مہلک مرض لاحق ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ بلوچی زبان‘ ادب اور بلوچی ڈکشنری (لغت) ’’سید گنج‘‘ کیلئے دن رات کوشاں رہے۔ انہوں نے عمر کا اچھا خاصا حصہ خلیج کے ممالک میںگزارا‘ جہاں انہیں مطالعہ کیلئے بہت کچھ ملا اور ان کی ادبی تحقیق اور جستجو روز بروز بڑھتی گئی۔
سید ہاشمی اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے‘ ایک علمی ادارہ تھے وہ کام جو ’’بلوچی سرچمگ‘‘ کے ادیب مل کرنہ کرسکے وہ سید ظہورشاہ نے نہایت عمدگی اور اعلیٰ پیمانہ پر تنہا سر ا نجام دیا۔ انہوں نے پہلی دفعہ نثری شاعری کو بلوچی ادب میں روشناس کرایا۔
سید ظہورشاہ ہاشمی جب خلیج سے ہندوستان کے مشہور تعلیمی و تحقیقی مرکز دکن کالج پونا جرمن اسکالرڈاکٹر جاہن سٹراسر کے ساتھ بلوچی زبان پر تحقیق اور اس خطے کے لسانیات پر کام کرنے کی غرض سے گئے تو وہاں ان کی ملاقات ایک اور مشہور ماہر لسانیات ڈاکٹر این‘ ایس شکلا سے ہوئی اور وہاں ہندوستانی زبانوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں۔ اور اس سے بلوچی زبان و ادب پر بھی سید کو بہت کامیابی ملی۔
1969ء کو سید دوبارہ کراچی تشریف لائے اور اپنے قریبی رشتہ داروں میں شادی کی اور ان کے ہاں تین صاحبزادے پیداہوئے۔ سلیمان شاہ رکھیں‘ شاہ اور جمن شاہ‘ جبکہ جمن شاہ بچپن ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ آپ کے آخری ایام بڑے کرب میں ا ور پرسوز اندازمیں گزرے‘ اس کے باوجود کہ ان کی صحت روز بروزگرتی جارہی تھی۔ گھریلو
حالات ناگفتہ بہ تھے لیکن اس مرد قلندرنے اپنی کاوش اور محنت برابر جاری رکھی اور گھبرائے نہیں۔ بستر مرگ پربھی ان کا قلم بدستور متحرک رہا جو سرمایہ انہوں نے تحریری صورت میں اور ذہن میں جمع کیا تھا ترتیب دیناشروع کیا۔ بلوچی میں پہلا ناولٹ ’’نازک‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’’سید گنج‘‘ کو ترتیب دیا اور کئی دوسری کتابوں کے مسودوں کو تیارکیا‘ اس دوران انکی بیماری نے بھی شدت اختیار کرلی تھی‘ وہ جانتے تھے کہ زندگی ان سے وفا نہیں کرے گی۔ لہذا انہوںنے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کو ترجیح دی۔ انہوںنے لگ بھگ 30 سے زائد کتابیں لکھیں‘ جن میں زیادہ تر شاعری‘ ناول‘ افسانہ اور زبان و لسانیات پرمبنی تھیں۔ ان میں سے بہت سی کتابوں خاص کر بلوچی لغت سیدگنج جو کہ بلوچ قوم پر سید کا بہت بڑااحسان ہے ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ ان کی کتابوں میں بلوچی دربر (زبان)‘ بے سرگال (کالم) ‘ بلوچی سیاہگ (گرامر)‘ بلوچی اردو بول چال (زبان)‘ نازرک (ناول)‘ بلوچی زبان و ادب کی تاریخ (اردو)‘ انگروترنگل(شاعری)‘ تراپکنیں ترمپ (شاعری) اور ستگیں دستونگ (نثری شاعری جو کہ سید کی پہلی کتاب ہے جو سب سے پہلے شائع ہوئی) بالاآخر وہ منحوس لمحہ بھی آن پہنچا جب بلوچی زبان کا یہ درخشاں ستارہ 3 مارچ 1978ء کو اس قوم کو ایک جہد مسلسل کا درس اور بلوچی زبان کوبہت کچھ دے کر اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ انہیں کراچی کے میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا۔ ان کے وصال کے فوراً بعد کراچی کے قدر دان بلوچ شعراء اور ادباء نے ’’سید ہاشمی اکیڈمی‘‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد ڈال کر بلوچی زبان ادب سے دلی محبت اور پختگی محبت اور اپنے شعور کا ثبوت باہم فراہم کیا۔’’سید گنج‘‘ بلوچی زبان کی پہلی ڈکشنری کے ا دھورے منصوبے کو مکمل کیا۔