بصیرت نام تھا جس کا گئی……!
اصل شعر تو شاعر مشرق علامہ اقبال کا ہے۔ فرمایا: ع حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔اس شعر سے ایک خاندان کی داستان وابستہ ہے۔ بعینہٖ اسی طرح جب ہم علامہ کی روح سے معذرت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ بصیرت نام تھا جس کا نہیں اہل وطن میں اب تو اس کی تہہ میں بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ کا ہر ہر ورق ہے، ہرہر دن ہے۔ یہ مؤمنانہ بصیرت ہی تھی جس نے مرحوم چودھری رحمت علی کو اسلامیانِ ہند کے لیے آزاد مسلم ریاست پاکستان کے تصوّر کی راہ دکھائی تھی۔ جب وہ برطانیہ میں طالب علم تھے، یہ بھی مؤمنانہ بصیرت ہی تھی جس نے یورپ ہی کے تعلیم یافتہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو چودھری رحمت علی کی فکر میں رنگ بھرتے تائید کی توفیق بخشی اور پھر یہ بھی تو بصیرت ہی کا شاہکار تھا جس نے یورپ ہی سے تعلیم پاکر فکر رحمت علی اور فکر اقبال کو عملی شکل دینے کے لیے مسلم لیگ کا عَلم تھاما اور انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ، ہندو کی مکاری و عیاری کو زک پہنچاتے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جنگ لڑی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی لاج رکھتے 27رمضان المبارک 14اگست 1947ء کو پاکستان دیا۔تینوں سعید روحوں، چودھری رحمت علی ، علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ جس قوم کی جھولی میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا قیمتی اثاثہ ڈال چلے ہیں وہ حفاظت و استحکام کے لئے مطلوب بصیرت کے سرمایہ سے بانجھ ہوگی۔ اسلام کا نام لینے کے باوجود اسلام کی بنیاد مومنانہ بصیرت سے کوری ہوگی۔ اس کی ’’بصیرت‘‘ کی بنیاد اغیار کی غلامی کے سبب انہی کے ہاں رہن رکھی جا چکی ہو گی۔ یہ محض مفروضہ نہیں، ٹھوس حقیقت ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد باوجود قرارداد مقاصد کے ساتھ اسلامی آئین دستور کی تدوین، سیاسی ودینی رہنمائوں نے ایک دن کے لئے بھی عملاً بصیرت کا مظاہرہ کرتے استحکامِ وطن کی جانب قدم نہ بڑھایا اور ملک بتدریج کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا تاآنکہ اسلامی جمہوریہ ہی کے ایک وزیر اعظم نے’’ادھرتم، ادھر ہم‘‘ کا نعرہ مستانہ لگایا، ازلی دشمن یہود و ہنود کی باہمی منصوبہ سازی کامیاب ہوئی تو 1971ء میں نصف پاکستان (مشرقی پاکستان) بنگلہ دیش بن گیا۔ مسلمان کی بصیرت ہار گئی اور ملت کفر کی بصیرت جیت گئی۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے اور بنوانے والوں کو راہ مل گئی ۔اُن کی بصیرت پالش ہو کر فعال ہوگئی کہ اُنھوں نے مغربی پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہ کیا۔ ان کی بصیرت نت نئی راہیں دکھاتی رہی کبھی دریائی پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے دریائوں پر ڈیم بنے تو کبھی پاکستان کے دوست ممالک کی مارکیٹوں پر ہلہ بول کر برآمدات کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ کبھی ممبئی تاج و اوبرائے ہوٹلوں پر پاکستانی دہشت گردوں کا حملہ قراردیتے پاکستان کو پاکستان کی دینی جماعت کو بدنام کرنے میں اپنی کامیابی تلاش کی توکبھی کشمیر میں کارروائی پاکستان کے کھاتے میں ڈالی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نابغہ شخصیات اپنی بے بصیرتی کے ہاتھوں ہمیشہ ہی یہود و ہنود کی بصیرت کے سامنے بے بس ثابت ہوئیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں (اِلاماشاء اللہ) نے کبھی بصیرت کو زحمت نہ دی مثلاًسیاسی جماعتوں سے بننے والے بعض وزرا حضرات پاکستان سے زیادہ غیروں کے خیرخواہ بن کر ملک دشمن وزیر خزانہ اور وزیر اعظم تک مقرر کرتے رہے مثلاً پرانے دور کے شعیب پاکستان کے وزیر خزانہ سے زیادہ یہود نواز IMF کے وزیر خزانہ تھے، سابق وزیر اعظم معین قریشی پاکستان کے وزیر اعظم کے بجائے غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل کے وزیر اعظم تھے اور اس طرح شوکت عزیز کی وزارتِ عظمیٰ کی پالیسیوں کا تجزیہ کریں تو یہ سب یہود نواز IMF کی پالیسیوںکی ترویج تھی اور وہی شوکت عزیز واپس جا کر دوبارہ پاکستان دشمن بھارت میں بطور ایڈوائز بھی آئے ۔ ان سے استفاد ہ کنندگان کی بصیرت کا معیار آپ کے سامنے ہے۔
آج پاکستان جس قسم کے بحرانوں کا شکار ہے وہ کسی باشعور پاکستانی کی نظر سے اوجھل نہیں ہیں۔ عدمِ استحکام کے لیے چہار سو دہشت گردانہ کارروائیاں روز مرہ کا معمول ہیں۔ بھارت کی شب وروز کی ریشہ دوانیاں بارڈرپر ہر روز گھنٹوں فائرنگ، پاکستان کے اندر جاسوسی کا نیٹ ورک، ’را‘ کے ذریعے بے ضمیر پاکستانیوں کو خرید کر من پسند کارروائیاں کروانا اور افغانستان وایران کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا، معاشی طور پر غیر مستحکم کرنے کی خاطر بیرونی ممالک خصوصاً عربوں میں پاکستانی مصنوعات کو ناقص اور بھارت مصنوعات کی بھرمار پر خصوصی توجہ ہے۔ ہرشعبۂ زندگی دشمن کی زد میں ہے۔مذکورہ صورت حال کا تقاضا تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر لیڈر جذبہ حُبّ الوطنی سے سرشار اپنے دائرہ کار میں استحکامِ وطن کے لئے منظم ومتحد ہوکر کردار ادا کرے کہ گزرتے دنوں کا تقاضا یہی ہے۔ دینی عناصر ہوں یا سیاسی لوگ، حکمران طبقہ ہو یا ہرنوع کی بیوروکریسی، معلّمین ہوں یا مسیحا یعنی ڈاکٹر حضرات، غرض ہرکوئی اپنے فرضِ منصبی کی اہمیت جانتے ہوئے ذاتی مفادات کو دفن کرے اور قومی مفادات کے لیے مصروفِ عمل ہو کہ یہی آج کا تقاضا ہے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دشمن (یہودی، امریکہ و بھارت کا اتحاد ثلاثہ) مکمل یکسوئی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی ہمہ جہت سازشوں میں مصروف ہیں۔ یواین او پر یہود کا مکمل کنٹرول ہے کہ یہ انھوں نے ہی بنوائی تھی (یہ تاریخی حقیقت ہے) یواین او میں مشرقی تیمور کی مسیحی ا ٓبادی کے لئے آزاد ریاست چند دن میں طے ہو جائے، جنوبی سوڈان کی مسیحی برادری کے لئے آزادی ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کے اصول پر طے ہوجائے لیکن بھارت سے آزادیٔ کشمیر کا مسئلہ 69 سال سے طے نہ ہوسکا جو یہود وہنود او رامریکہ کے طے کردہ پروگرام کے سبب لٹک رہاہے کیونکہ ملت اسلامیہ کا باہمی انتشار اسے اس قوت سے محروم کر چکا ہے جو ملت کفر کو آج نصیب ہے۔
۔پاکستان خطرات میں گھرا ہے آج قومی یک جہتی کی جس قدرضرورت ہے شاید ماضی میں کبھی نہ تھی مگر آج تمام سیاسی مذہبی کہلوانے والی جماعتیں باہم دست بہ گریباں ہیں ۔
آج ہم چوراہے پر کھڑے ہیں ، دشمن تو دشمن ہیں ہی، جنہیں ہم دوست سمجھ رہے ہیں وہ ان کھلے دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ مسلمان کا حقیقی دوست صرف مسلمان اور وہ بھی صاحب ایمان ہی ہو سکتا ہے۔ کافر کوئی بھی ہو، روس ہو، امریکہ وبرطانیہ اور فرانس ہوں وہ صرف اپنے مفادات کے دوست ہیں ۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہم اپنے انتہائی قابل اعتماد دوست امریکہ کی دوستی انجوائے کر چکے ہیں کہ ہماری مدد کو آنے والا امریکی بحری بیڑہ ’’انٹرپرائز‘‘ اس وقت پہنچا جب ہمارا بیڑہ غرق ہو چکا تھا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا ۔ فی الواقعہ امریکی انٹرپرائز نے بھارت کی مددکی تھی کہ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃ۔ اسی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ ہی سے خرید کردہ F-104 کے معاہدے کے تحت ملنے والے اسپیرپارٹز کی فراہمی روک کر پاک امریکہ دوستی کا عملی ثبوت فراہم کیا گیا تھا۔ مگرآفرین ہے ہماری بصیرت کا، امریکہ آج بھی ہمارا ’’جگری یار‘‘ ہے کہ ہماری سرکار کی بصیرت کا یہی فیصلہ ہے اور امریکہ میں ہی قید عافیہ صدیقی بھی ہماری بے غیرتی و بے بصیرتی کا ثبوت دے رہی ہے۔اُمت ِمسلمہ کے عمومی حالات پر طائرانہ نظر ڈالیں توہر کونے میں ’’مؤمنانہ بصیرت‘‘ حکمرانوں کی حمیت وغیرت کا ماتم کرتی دیکھی جارہی ہے کہ کس ’حسن وخوبی‘ کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان ذبح ہو رہے ہیں اور مسلمان حکمران اس مسلم کشی کے لئے مطلوب سامانِ حرب کی خرید اری کے لئے امریکہ سے اربوں ڈالر کا سودی قرض لے چکے ہیں، حالانکہ قرآن مجید میں سودی قرض قرض دار کے خلاف اللہ نے اپنی اور اپنے رسول ؐ کی جنگ قرار دیا ہے گویا اللہ اور اسکا رسول ؐ جنگ کرتے ہیں اور جس کے خلاف اللہ خود جنگ کرے اسکا ٹھکانہ کہاں ہوگا اور حدیث میں پرلے درجے کی اخلاقی بے غیرتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔