علامہؒ کا قائدؒ کو اےک خط
اقبالؒ کو حکےم الامت کہا جاتا ہے۔ وہ اےک اےسی اسلامی رےاست کا خواب دےکھتے تھے۔ جہاں برصغےر کے مسلمان آزاد حیثےت مےں اپنی زندگےاں اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکےں ۔اقبالؒ ہندو قوم کی شدّت پسندی سے بھی واقف تھے۔ وہ ےہ بھی جانتے تھے کہ ہندوو¿ں کو برصغےر پہ مسلمانوں کے ہزار سال تک حکومت کرنے کا بھی غصہ ہے۔ ہندو و انگرےز کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے سامنے گڑگڑاتے دےکھنے کے خواہشمند ہےں۔ وہ مسلمانوں پر حکومت کرکے بدلہ لےنے کی کوشش مےں ہےں۔ اقبالؒ کو پتہ تھا کہ تعلےم اور عددی لحاظ مےں کم ہونے کی وجہ سے مسلمان متحدہ ہندوستان مےں کمزور ہی رہےں گے اور ان کی مذہبی آزادی کو ہر وقت ہندوو¿ں سے خطرہ ہی رہے گا۔ (اور ےہ سب کچھ آج بھارت مےں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے)۔ حضرت علامہ اقبال ؒانہی خدشات کو دےکھتے ہوئے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو اےک خط لکھتے ہےں اور اپنا نقطہ نظر کچھ ےوں بےاں کرتے ہےں۔ مائی ڈےر مسٹر جناح مجھے کامل ےقےن ہے کہ اسلامی ہند کی نزاکتِ حالات کا آپ کو پورا پورا احساس ہوگا۔ مےرا ذاتی خےال ہے کہ کوئی سےاسی جماعت جو عام مسلمانوں کی بہبود کی ضامن نہ ہو، عوام کے لےے باعث کشش نہےں ہوسکتی۔ نئے دستور کے مطابق بڑی بڑی آسامےاں تو اعلیٰ طبقات کے بچوں کے لےے وقف ہےں۔ اور چھوٹی چھوٹی وزرا کے دوستوں اور رشتہ داروں کی نذر ہوجاتی ہےں۔ دوسرے اعتبار سے بھی ہمارے سےاسی ادارات نے غرےب مسلمان کی اصلاحِ حال کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہےںکی۔ روٹی کا مسئلہ شدےد تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہےں کہ گزشتہ دو سو سالوں سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے۔ مسلمان ےہ سمجھتے ہےں کہ ان کی حالت کی ذمہ داری ہندو کی ساہو کاری اور سرماےہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ جواہر لال کی منکرِ خدا اشتراکےت مسلمانوں مےں کوئی تاثر پےدا نہ کرسکے گی۔ لہٰذا سوال ےہ پےدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کےونکر نجات دلائی جا سکتی ہے۔ آگے جا کے حضرتِ اقبالؒ لکھتے ہےں کہ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاظ مےں اِس مسئلہ کا حل موجود ہے۔ شرےعتِ اسلامی کے طوےل و عمےق مطالعہ کے بعد مےں اِس نتےجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طرےقے پر سمجھا اور نافذکےا جائے تو ہر شخص کو کم از کم معمولی معاش کی طرف سے اطمےنان ہوسکتا ہے ۔سالہا سال سے مےرا ےہی عقےدہ ہے اور مےں اب بھی شرےعتِ اسلامی کے تحت بننے والے قوانےن کو ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندوستا ن کے امن کا بہترےن حل سمجھتا ہوں۔ متحدہ ہندوستان مےں اگر اس طرےق کار پر عمل ناممکن ہے تو پھر صرف اےک ہی راہ رہ جاتی ہے۔ اور وہ ہے خانہ جنگی ، جو ہندو مسلم فسادات کی شکل مےں کئی سالوں سے شروع ہے ۔جواہر لال کی اشتراکےت خود ہندووں مےں کشت و خون کا موجب ہوگی۔ اگر ہندو دھرم معاشرتی جمہورےت (سوشل ڈےموکرےسی) اختےار کرلےتا ہے تو خود ہندو دھرم کے خاتمے کا موجب بنے گا۔ مسائلِ حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لےے ہندوو¿ں سے کہےں زےادہ آسان ہے۔ لےکن مےں جےسا کہ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندوستان مےں ان مسائل کے باآسانی حل کے لےے ہندوستان کی تقسےم کے تحت اےک ےا زائد اسلامی رےاستوں کا قےام اشد ضروری ہے۔کےا آپ کی رائے مےں اِس مطالبہ کا وقت نہےں آپہنچا؟ شائد جواہر لال کی اشتراکےت کا آپ کے پاس ےہ بہترےن جواب ہے۔ مےں نے اپنے خےالات آپ کی خدمت مےں اس اُمےد پر پےش کر دئیے ہےں کہ آپ انہےں اپنے خطبہ ےا لےگ کے آئندہ اجلاس مےں پےش کرےں اس نازک دور مےں آپؒ کی فطانت و فراست ہی مسلمانوں کی مشکلات کا کوئی حل تجوےز کر سکے گی۔ اس امر مےں مےں آپ کا ہم خےال ہوں کہ ہماری قوم ابھی تک نظم و ضبط سے محروم ہے ۔
اس وقت بھی اعلیٰ عہدے اور نوکرےاں منظورِ نظر لوگوں کو دی جاتی تھےں۔ اور افسوس کی بات ہے کہ آج آزاد پاکستان مےں بھی اعلیٰ تعلےم اور پُرکشش نوکرےاں امراءکے لےے ہی مختص ہو چکی ہےں۔ اےک عام شہری آج بھی اپنے روزگار کے لےے پرےشا ن ہے۔ اس قوم کے لےڈروں نے ہر کسی کو صرف روزی روٹی کے چکر مےں اُلجھا کے رکھ دےا ہے۔ ہر کوئی اچھی تعلےم اور اچھی نوکری کے لےے تگ و دو کر رہا ہے۔ ستاروں پہ کمندےں ڈالنے والے اقبالؒ کے شاہےں ذہنی غلام بن چکے ہےں۔ تخلےقی صلاحےتوں سے دور ےہ قوم صرف زندگی گزارنے کے لےے جی رہی ہے۔ زندگی آسان کرنے کا جو نسخہ شرےعت نے دےا ہے۔ وہ کہےں اور سے نہےں ملے گا ۔ نبی پاک کی ساری زندگی امت مسلمہ کی راہنمائی کے لےے ہمارے سامنے موجود ہے ۔ آج کے دور امن و محبت کے لےے صوفےا کی زندگےاں اور ان کا کلام ہمارے لےے بہترےن سبق رکھتا ہے۔ قائد چننا ہو تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو دےکھا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم نے دنےا مےں سر اُٹھا کے جےنا ہے تو اپنے بچوں کو اقبال ؒ کے شاہےں بنانا ہوگا۔ جو اپنی روزی کے لےے دوسروں کا محتاج نہ ہو‘ بلکہ اپنی صبحےں اپنی شامےں خود پےدا کرے۔ ہمےں جلد از جلد ہجوم سے قوم بننے کا سفر شروع کرنا ہوگا۔