صحت، تعلیم اور اشرافیہ
بلوچستا ن اور خیبر پی کے کا بڑا ”مسئلہ “یہ ہے کہ وہاں پہ وڈیروں ،سرداروں ، اشرافیہ اور خوانین کا قبضہ ہے ۔ جو کسی بھی عام شہری کو آگے بڑھنے دیتے ہیں نہ ہی کسی کو تعلیم اور صحت کی سہولیات مہیا کرتے ہیں آپ ان دونوں صوبوں کے امراءکا پروفائل نکال کر دیکھ لیں آپ کو ان کے بچے” بیرون ممالک“ پڑھتے نظر آئیں گے ۔ان کے پاس” صحت “کی بھی اعلیٰ سہولتیں ہوں گی، لیکن ان کے مزارعے ، ملازمین اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو کوئی بھی سہولت میسر نہیں ہے ۔آپ ان کے محلات کو دیکھیں توان میں لگی ”ٹائلیں “بھی بیرون ممالک سے آئی ہوئی ہیں۔ لیکن غریب آدمی کو سردی سے بچاﺅکے لیے ”جھونپڑی “بھی بنانے کی اجازت نہیں ہے ۔حال ہی میں سیکرٹری ایجوکیشن بلوچستان نے چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں 11ہزاراسکولوں میں” واش رومز“ کی سہولیات موجود نہیں۔ 50فیصد اسکولوں میں” پینے کا پانی“ نہیں اور یہی صورتحال مڈل اورہائی اسکولز کی بھی ہے۔سرمایہ داروں اور وڈیروں نے آج تک کسی بھی سکول کو تعلیم کے قابل چھوڑا ہی نہیں ۔اس کی بڑی وجہ” وڈیرہ ذہن “ہے ،جو کسی غریب کو تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھتا ۔آپ حکومت کی ترجیحات کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ بلوچستان میں ڈاکٹرزکی تنخواہ 24ہزارروپے ہے جبکہ سپریم کورٹ کاڈرائیور بھی 35 ہزار روپے لیتاہے،اب ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کر کے” گھر کا چولہا“ نہیں جلائیں گے تو کیا کریں گے۔ غربت، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریاں اور بد امنی نے وہاں کے عوام کے” احساس کمتری“ میں اضافہ کر دیا ہے ۔جبکہ امراء،وڈیرے ، سردار عوام کے” استحصال“ میں برابر کے شریک ہیں ۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد لگ بھگ 34 لاکھ ہے جن میں سے محض 11 لاکھ بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔کیا حکومت وہاں کے وزیر تعلیم نے کبھی اس جانب غور کیا کہ 23لاکھ بچے صوبے میں کیا کر رہے ہیں ۔اگر یہ بچے انتہا پسندوں کے” شکنجے میں پھنس “گئے تو پھر جو” تباہی“ آئے گی جس کا تصور کرتے ہی ”رونگٹے “کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ 23 لاکھ بچوں کی تعلیم سے محروم رہنے کی بڑی وجوہات میں غربت، وسائل کی کمی، بنیادی ڈھانچے میں کمزوریاں اور امن و امان کی خراب صورت حال شامل ہیں۔اس وقت سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد 56 ہزار ہے جو زیر تعلیم طالب علموں کے لیے بھی” ناکافی“ ہے۔ اگر 23 لاکھ بچوں کو سکول میں لایا جاتا ہے تو پھر ہنگامی بنیادوں پر نئے اساتذہ کو بھرتی اور نئی درسگاہیں تعمیر کرنا ہوں گی۔جو صاف ظاہر ہے حکومت میں بیٹھے وڈیرے اور سردار بننے نہیں دیں گے ۔
اس وقت بلوچستان میں موجودہ شرح خواندگی محض 26 فیصد ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال اس صوبے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک کروڑ اکتیس لاکھ ساٹھ ہزار آبادی والا صوبہ ہے، قدرتی وسائل اور خزانوں سے مالامال ہے مگر یہ بات انتہائی افسوس کی ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک اِس صوبہ کو ہر شعبہ میں نظر انداز کیا گیا ہے اور اِس کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا۔دیگر صوبوں میں تعلیم کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے مگر بلوچستان کی نسبت دیگر صوبوں میںکسی حد تک خوشحالی اور شعور ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ا±ن کے بچے اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔ بلوچستان میں چونکہ غربت بہت زیادہ ہے اور تعلیم کے حصول کے آسان ذرائع بھی موجود نہیں ہیں۔والدین اتنی” استطاعت “ہی نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابیں، کاپیاں اور بیگ خرید کر دے سکیں۔ بلوچستان میں بھی پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح وڈیرہ نظام رائج ہے اِس لیے وہ اپنی اولاد کو تو بیرونِ ملک تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں جبکہ اپنے علاقے کے لوگوں کو بنیادی تعلیم سے بھی محروم رکھتے ہیں ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام ا±س وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک حکومتیں اِس مسئلہ کواپنی ترجیحات میں شامل نہ کریں، بلوچستان میں صرف تعلیم کے ذریعے سے ہی امن لایا جا سکتا ہے ۔ صوبہ خیبر پی کے میں ماضی کی نسبت شعبہ تعلیم میں کافی بہتری آئی ہے ،اور امیر غریب میں تعلیم کے شعبے میں تفریق ختم ہوتی نظر آتی ہے ، اس کے علاوہ ان دونوں صوبوں میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے ۔جب جانور اور انسان ایک ”جوہڑ “سے پانی پئیں گے تو صحت کا آپ خود ہی اندازہ لگا لیں ۔ حکومت اور وڈیروں نے اس سلسلے میں” ایکا“ کیا ہوا ہے کیونکہ اگر صحت کی سہولیات بہتر ہو گئیں تو لوگ تندرست ہو گئے تو ان کے ”مدمقابل“ کھڑے ہو جائیں گے ۔اس لیے وہ کمزور اور ”نحیف و نزار“ رہیں تاکہ ان میں کھڑے ہونے کی طاقت ہی نہ ہو ۔
عالمی ادارہ صحت نے ہیپاٹائٹس کے مرض میں بلوچستان کے 7 اضلاع کو انتہائی” ہائی رسک “قرار دے دیا ہے۔اور صوبے میں ہر 100 میں 30 افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں ۔ انتہائی ہائی رسک اضلاع میں نصیرآباد، جعفرآباد، ژوب، لورالائی، موسی خیل، سبی اوربارکھان شامل ہیں جبکہ دیگراضلاع میں ہیپاٹائٹس کی شرح 10 سے 28 فیصد ہے۔غربت کے باعث استعمال شدہ و آلودہ سرنج، نڈل، ڈرپ و طبی اور جراحی کے آلات، شیو کے لیے استعمال شدہ ریزر، بلیڈکا استعمال عام ہے جس بنا پر ہر یہ مرض اس قدر بڑھ چکا ہے ۔
حکومت پاکستان کی شعبہ صحت میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے ”رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز“ نے ہسپتالوں کی رینکنگ جاری کی ، جس کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں۔تاہم جنوبی ایشیا کے 20 بہترین ہسپتالوں میں بھارت کے 19 اور بنگلا دیش کا ایک ہسپتال شامل ہے جبکہ پاکستان کا سی آئی ڈی پی انٹر نیشنل فاونڈیشن جسے پاکستان کا درجہ اول کا ہسپتال مانا گیا ہے ،جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں میں 22ویں نمبر پر ہے، جناح میموریل ہسپتال 28ویں نمبر پر جبکہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی 29 ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں کی فہرست میں اسلام آباد کا شفا انٹرنیشنل 45 ویں نمبر پر جبکہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال 48 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان کے لیے” انتہائی شرمندہ“ کر دینے والی بات یہ ہے اسلام آباد کا” پمز“ جسے پاکستان کا بہترین ہسپتال مانا جاتا ہے رینکنگ میں 5 ہزار 911 نمبر پر ہے۔اگر آج چیف جسٹس آف پاکستان” سیاسی اور سرمایہ داروں“ کے بیرون ممالک” علاج پر پابندی“ عائد کر دیں تو ملکی ہسپتالوں کی حالت بہت جلد بہتری کی جانب لوٹ آئے گی ۔