دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کے اقدامات رول ماڈل ہیں
امریکی وزارت خارجہ کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 2016ءسے 2017ءکے درمیان پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں تقریباً چالیس فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2017ءکے اختتام تک پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات کی تعداد ایک ہزار 84 تھی جبکہ 2016ءمیں یہ تعداد ایک ہزار 803 تھی۔ یعنی 719 اموات کم ہوئیں۔
پاکستان نے امریکہ اور نیٹو ممالک کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف‘ ایک عشرہ تک بڑی خوفناک جنگ لڑی۔ پاک فوج کو جن جنونی دہشت گردوں سے لڑنا پڑا‘ وہ جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے ساتھ انتہائی وحشی تھے۔ ان کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی‘ تاہم پاک فوج نے یکے بعد دیگرے ضرب عضب، ردالفساد اور خیبر 4 ایسے آپریشنوں کے ذریعے‘ دہشت گردوں پر زمین تنگ کر دی کہ وہ ہلاک ہو گئے یا فرار ہوکر سرحد پار چلے گئے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شدت پسند تنہا نہیں تھے بلکہ انہیں بھارت کی ”را“ اور افغانستان کی ڈی این ایس کی مکمل اعانت حاصل تھی۔ انہیں اسلحہ بھی ملتا رہا اور پیسہ بھی۔تاہم بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں کی معاونت کے باوجود پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ اب دہشت گرد کی جو اکا دکا وارداتیں ہوتی ہیں‘ یہ وہ شدت پسند ہیں جنہیں افغانستان نے اپنے سرحدی صوبوں میں محفوظ ٹھکانے اور نقل و حرکت کی سہولیات مہیا کر رکھی ہیں۔ دوسر طرف افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی میں کوئی ایک تنظیم ملوث نہیں بلکہ طالبان کے علاوہ داعش اور القاعدہ بھی سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے سابق حکمرانوں کے معاندانہ رویئے کے باوجود افغانستان کے دشمنوں کو اپنا دشمن اور افغانستان کے امن کو اپنا امن سمجھا ہے‘ لیکن کابل انتظامیہ شروع سے ہی بھارت کے زیراثر رہی ہے۔ اس لئے پاکستان کے نیک نیتی کے اقدامات کو بھی شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ افغانستان کے اس رویئے کا پاکستان کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا‘ البتہ وہ امریکہ کی موجودگی اور بھارت کی سرپرستی کے باوجود دہشت گردی پر کنٹرول نہیں کر سکا، حالانکہ وہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور کارروائیوں سے حاصل ہونے والے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اس لعنت کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ اب بھی اگر وہ اس معاملے میں پاکستان سے رجوع و رابطہ کرے‘ تو افغانستان کو دہشت گردی سے پاک کیا جا سکتا ہے۔