کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 246 میں پاکستان کی تاریخ کا سنسنی خیز الیکشن آج ہورہا ہے۔ جس میں تین بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اورایم کیو ایم آمنے سامنے ہیں۔ آج کاالیکشن کراچی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن حکومت سندھ اوررینجرز نے ضمنی انتخاب کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔جمعرات کو ضلع وسطی میں عام تعطیل ہوگی‘ ڈبل سواری پر پابندی عائد کی گئی ہے اوررینجرز نے شہریوں کوشناختی کارڈ جیب میں رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اس وقت پورے ملک کی نظریں کراچی پرمرکوز ہیں اورکسی اپ سیٹ کی توقعات بھی موجود ہیں۔ ایم کیوایم کا ہیڈ کوارٹر نائن زیرو حلقہ نمبر این اے 246 میں ہے۔11 مارچ کے بعد سے جب یہاں چھاپہ مارا گیا تھا‘ ابھی تک آپریشن اور الیکشن ساتھ ساتھ چل ہے ہیں۔ ایک خیال یہ تھا آپریشن سے پریشان ایم کیو ایم الیکشن کا بائیکاٹ کر دے گی لیکن ا یم کیو ایم نے بائیکاٹ کے آپشن کو مسترد کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے انتخابی سرگرمیوں کی فضا بنا دی اور ماحول کو گرما دیا۔ عمران خان کی یلغار سے جماعت اسلامی کوبھی حوصلہ ملا اور وہ میدان میں آ گئی۔ مسلم لیگ (ن) نے امیدوار کھڑا نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد جماعت اسلامی کی پوزیشن مستحکم ہوگئی اور اب وہ رنر اَپ کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ سیکورٹی کے سخت انتظامات چیکنگ کے پیچیدہ مراحل اورپولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر رینجرز کے 10 جوانوں کی تعیناتی کے بعد ایم کیو ایم کا ووٹر باہرنکلے گا یا نہیں۔ ا یم کیو ایم کی طرح جماعت اسلامی اورتحریک انصاف کو بھی اپنی اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ جماعت اسلامی زیادہ پر اعتماد دکھائی دیتی ہے۔ راشد نسیم کہتے ہیں یہ ہمارا حلقہ ہے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس حلقہ سے قومی اسمبلی کے چار اورتین بلدیاتی الیکشن جیت چکی ہے‘ تحریک انصاف نووارد ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ہم نے کراچی سے خوف کی فضا ختم کردی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ایم کیو ایم کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ عزت بچانے کے لئے امیدوار دستبردار کرالے۔ تینوں جماعتیں شاہراہ پاکستان پر قوت کامظاہرہ کرچکی ہیں‘ تجزیہ نگار کہتے ہیں جماعت اسلامی کا جلسہ تحریک انصاف سے بڑا تھا‘ تحریک انصاف کے جلسہ میں حلقہ کے لوگ نہیں تھے۔ 30 ہزار کرسیاں رکھی گئی تھیں‘ خالی کرسیوں کو عمران خان کے خطاب سے پہلے اٹھالیا گیا تھا۔ آپریشن چھاپوں اورگرفتاریوںاور میڈیا ٹرائل کے بعد مہاجر کارڈ ایم کیوایم کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ حلقہ میں 84 فیصد ووٹرز اردو بولنے والے ہیں‘ جماعت اسلامی کے پاس بھی اردو بولنے والوں کا ووٹ بنک ہے۔ جبکہ مخصوص حلقوں میں عام تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ 11 مئی 2013ء کے الیکشن میں پورے کراچی کی خواتین اور لڑکیاں عمران خان کو ووٹ ڈالنے نکل کھڑی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سب جماعتوں کیلئے یہ امتحان کا مرحلہ ہو گا کہ اس حلقہ کی خواتین عمران خان یا دیگر جماعتوں کو کتنے ووٹ دیتی ہیں۔
رینجرز کی تعیناتی نے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا خوف ختم کردیا ہے۔ ضمنی انتخاب کاایک پہلو یہ ہے کہ تمام دینی جماعتیں ایم کیوا یم کے خلاف متحد ہوگئی ہیں اور انہوں نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے‘ لیکن ایم ڈبلیو ایم تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے۔11 مئی 2013ء کے الیکشن میں اس حلقہ میں 2 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے جس میں ایم کیو ایم کو ایک لاکھ 45 ہزار ووٹ ملے۔ یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ ایم کیوا یم کو کتنے ووٹ پڑیں گے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ضمنی الیکشن میں کم ووٹ پڑتے ہیں جس کی مثال گزشتہ سال میں نارتھ ناظم آباد کا ضمنی انتخاب ہے جس میں ایم کیو ایم کو 10 ہزار اور تحریک انصاف کو 2 ہزار ووٹ پڑے تھے۔ ایک خیال یہ ہے کہ بہت سارے لوگ رینجرز کے خوف سے پولنگ اسٹیشن نہیں جائیں گے۔ 11 مارچ کو رینجرز نائن زیرو سے 100 کے لگ بھگ کارکن پکڑ کر لے گئی ہے‘ اس حلقے کے سابق رکن اسمبلی نبیل احمدگبول کہتے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کے الیکشن میں ٹھپے لگا کر ان کو جتوایا گیا تھا۔نبیل احمد گبول نے یہ اعتراف اس حقیقت کو جانتے ہوئے کیا کہ الیکشن کمیشن ان کو نااہل قرار دے سکتا ہے لیکن وہ بے پرواہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کئی سال تک ایم کیو ایم کے ساتھ رہے اور جب ایم کیو ایم پر برا وقت آیا تو نہ صرف ساتھ چھوڑ دیا بلکہ مشکلات پیدا کردیں۔ اس وقت میڈیا سمیت ساری توپوں کارخ ایم کیو ایم کی جانب ہے۔ سب جاں بلب ایم کیو ایم کی گردن پر پیررکھ کر تصاویر اتروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت ایم کیو ایم کو آنکھیں دکھا رہی ہے‘ وزیر بلدیات شرجیل میمن نے ایم کیوایم کے وزراء اور رہنمائوں کے شادی ہال مسمار کردئیے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے سے صاف انکار کردیا اور لال جھنڈی دکھادی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بلدیہ کے ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو نے ایم کیو ایم کے جلسہ عام میں فائر بریگیڈ کی اسنارکل استعمال کرنے پر ذمہ دار افسران کے خلاف آپریشن کا اعلان کردیا۔ ان حالات میں ایم کیوایم کے لئے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پہلی بار ریاستی مشینری ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں اور اسٹیبلشمنٹ ناراض ہے۔
کراچی میں تجزیہ نگاروں کا موقف ہے‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان اشتراک عمل نہ ہونے کے باعث کانٹے کے مقابلے کے ا مکانات ختم ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم خوش ہے کہ جماعت اسلامی اورتحریک انصاف ایک دوسرے سے نالاں ہوگئیں۔ 11 مئی 2013ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی اورتحریک انصاف کے امیدواروں نے مل کر 41 ہزار ووٹ لئے تھے۔ اس لئے دونوں جماعتیں مل کر ایم کیو ایم کے لئے انتخابی مسائل پیدا کرسکتی تھیں۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان جو کامیابی کے لئے بہت پرعزم تھے اب کہہ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو کم ووٹ پڑیں گے، جس کے بعد ایم کیو ایم بے نقاب ہوجائے گی۔ بعض حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف ضمنی الیکشن میں سنجیدہ نہیں ہے‘ تحریک انصاف نے حلقے میں انتخابی دفاتر نہیں کھولے۔ اس کے پاس پولنگ ایجنٹ تک نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابی مہم کو ریلیوں‘ نہاری کھانے‘ فوٹو سیشن اور ایم کیو ایم سے چھیڑ چھاڑ کرنے تک محدود رکھا ہے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کے انتخابی دفاتر موجود ہیں‘ وہ حلقہ نمبر 246 کے چپہ چپہ سے واقف ہے۔ الیکشن کے لئے ضلعی وسطی کی 55 عمارتوں میں 213 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے‘ پولنگ اسٹیشنوں میں 3 ہزار کیمرے لگائے گئے ہیں‘ پولنگ اسٹاف 1800 عملہ پر مشتمل ہے‘ پولنگ اسٹیشن پر تین ہزار رینجرز کے جوان اور حلقہ میں 10 ہزار رینجرز تعینات ہوگی‘ رینجرز کو امن و امان برقرار رکھنے کے ساتھ شفاف الیکشن کروانے کے بھی وسیع اختیارات دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات الیکشن کمیشن نہیں رینجرز کروارہی ہے‘ اس حلقہ میں کانٹے کا آخری مقابلہ 2002ء میں ہوا تھا‘ جب ایم کیو ایم کو 53 ہزار ووٹ ملے تھے اور جماعت اسلامی کا امیدوار 20 ہزار ووٹوں سے ہارا تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024