قومی اسمبلی کے حلقہ 246 میں ضمنی الیکشن کیلئے مہم عروج پر ہے۔ کراچی کا یہ حلقہ متحدہ قومی موومنٹ کا گڑھ ہے۔ یہ نشست نبیل گبول کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی۔ ضمنی الیکشن کی اس مہم کے 3 فریق متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے امیدواروں کیلئے بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہےں۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے اجتماعات سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ایک سے زیادہ بار خطاب کیا انکی تقریروں میں انکے مخاطب الطاف حسین اور انکی متحدہ قومی موومنٹ تھی جسے انہوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انکے لہجے کی درشتی اور تلخی میں غصہ اور نفرت پوری طرح غالب تھا۔ وہ اپنے خطاب کے دوران جذباتی انداز میں الطاف حسین اور انکی متحدہ قومی موومنٹ للکار تے رہے۔ پاکستان کی عمومی سیاسی صورتحال میں ایسے عناصر کو بالادستی حاصل ہے جو اپنی معمول کی زندگی میں پارسا چہروں کے ساتھ مقدس اعمال نامے ہاتھوں میں لئے عوام کے سامنے حاضر رہتے ہیں۔ مذہب، اخلاق، رواداری، اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں اور روحانی اقدار کا پرچار کرتے ہیں لیکن اپنے مخالفوں کے ذکر پر اپنے تمام تر تقدس، بزرگی‘ دانائی اورپارسائی وغیرہ کے امیج کو نظر انداز کر کے ایسے لہجے اور زبان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جو بظاہرایک اعلیٰ انسان کے امیج کے بر عکس ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ معمول کی بات ہے کیونکہ تاریخ بڑے بڑے انسانوں کے ایسے رویوں کے احوال سے بھری پڑی ہے جو بظاہر پارسائی، نیکی، وضع داری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مآخذ سمجھے جاتے تھے لیکن انکے باطنی رویوں میں دو سرو ں کیلئے بیزاری ، خفگی میں چھپی ہوئی نفرت ‘ غصے اور حقارت کا غلبہ ہوتا انکے منفی جذبوں کو جب بھی اظہار کا موقع ملتا وہ بے قابو ہو جاتے اور انکے اندر سے ایک ایسا انسان برآمد ہو جاتا جسے انہوں نے بڑی چالاکی اور عیاری سے پارسائی کے لبادے میں چھپایا ہوتا۔ دلائی لامہ تبت کا ایک روایاتی کردار ہے جو تبت کے باشندوں کی روحانی اور مذہبی پیشوائیت کی علامت ہے۔ صدیوں سے اسے خدا کے اوتار کی حیثیت حاصل رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بظاہر اسکی دانائی، عقل اور تدبر پر کسی کو کلام نہیں ہونا چاہئے۔ بہرحال خدا کا اوتار ہونے کیساتھ ساتھ وہ انسان بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک ایسے دلائی لامہ کی حکایت کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو سارا دن اپنا غصہ اپنی نفرت اور اپنی بشری کمزوریوں کو چھپائے رکھتا تھا اور لوگوں کے سامنے دیوتا یا خدا کا روپ دھارے رکھتا لیکن جونہی وہ آس پاس بیٹھے اپنے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کے ہجوم سے فارغ ہو کر کسی دوسرے ماحول میں آتا تو اپنے ایک خاص ملازم پر خوب برستا ‘اسکی تذلیل کرتا‘ اس پر مغلظات کی بارش کر دیتا ‘سارے دن کی نفرت، غصے اور ناراضی کااظہار کرتا‘ حقارت اور نفرت سے اس کے چہرے کو تھوک تھوک کر بھر دیتا۔لیکن اگلی صبح جب وہ دوبارہ لوگوں کے سامنے جاتا تو ایک بار پھر وہ نیکی کا مجسمہ اور خدا کا اوتار بن جاتا۔حلقہ این اے 246 کی الیکشن مہم کا عمومی جائزہ لیا جائے تو دراصل یہ الطاف مخالف مہم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے جماعت اسلامی کے رویوں میں نفرت اور غصہ غالب آ جاتا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے سیاسی مخالفت سیاسی دشمنی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ جماعت اسلامی کی روایات کا حصہ ہے۔ جماعت اسلامی کے جلسوں میں امیر جماعت اسلامی اپنے لہجے میں جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں اس سے الطاف حسین بلبلا اٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سراج الحق انہیں کھلم کھلا گالیاں دے رہے ہیں۔جماعت اسلامی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں روا ئتی طور پر سخت گیر ہے۔ سیاسی وضع داری کے لحاظ سے اسکا حوالہ زیادہ قابل تعریف نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنے مخالفین پر بھرپور طریقے سے حملہ آور ہوتی ہے اور اسکے سارے سیاسی اور جماعتی اعضا ایک لشکر بن کر جنگ کا ماحول پیدا کر دیتے ہیں۔ 70 کی دہائی میں سقوط ڈھاکہ برصغیر کی مسلم امہ کے وجود میں پیوست گہرا زخم ہے لیکن اسی سقوط ڈھاکہ کے بین السطور میں البدر اور الشمس جیسی جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں کے کردار کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ممکن ہے البدر اور الشمس کے کردار کے بارے میں ایک سے زیادہ آراءموجود ہوں۔ بہرحال یہ ایک ایسا حوالہ جس کی تکرار جماعت اسلامی کیلئے ہمیشہ ناگوار اور ناپسندیدہ ہوتی ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مجیب ہوں، بھٹو ہوں، بینظیر، فضل الرحمان یا پھر الطاف حسین اور اے این پی کی لیڈر شپ جماعت اسلامی اور اس کے اکابرین پر اپنے سیاسی مخالفوں کیلئے غصہ‘ نفرت اور تحقیرجیسے منفی جذبے غالب رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن اپنی امارت کا دورانیہ ختم کرکے سبکدوش ہوئے اور سراج الحق نے جماعت اسلامی کی امارت کا منصب سنبھالا تو تمام سیاسی حلقوں کی جانب سے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا اور ایسا سمجھا گیا جیسے انکا انتخاب قدامت پسند پس منظر رکھنے والی جماعت اسلامی کے تنگ نظر اور گھٹے ہوئے بند ماحول میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہو گا۔ اپنے معتدل اور متوازن سیاسی رجحان کی حامل شخصیت کا بھرپور تاثر دینے والے جماعت اسلامی کے نئے امیر سراج الحق کے بارے میں بعض حلقوں کی یہ رائے تھی کہ وہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں جو اپنی کوششوں سے جماعت اسلامی کو تنگ نظری، تعصب اور قدامت پسندی سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائینگے جو جماعت کے اعصاب پر بری طرح سے سوار ہے لیکن قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 246 کی انتخابی مہم کے دوران سیاسی اجتماعات میں سراج الحق اپنے مخالفین کے بارے میں جس طرح کا لہجہ اور زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کسی صورت بھی انکے شخصی تاثر کے حق میں مفید نہیں رہا۔ یعنی جونہی موقع ملا وہ اپنی بشری کمزوریوں کے سامنے بے بس ہو گئے اور سراج الحق کی شخصیت میں سے ایک دلائی لامہ برآمد ہو گیا ہے جو اپنے مخالف کے چہرے کو نفرت اور حقارت سے تھوک تھوک کر بھر دینا چاہتا ہے۔ محض ایک ضمنی الیکشن میں الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ پرانا حساب نہیں چکایا جا سکتا۔ لہذا سراج الحق کے شخصی تاثر کی یہ بہت بڑی قیمت ہے ۔ جماعت کی امارت کے منصب پر بیٹھی شخصیت کیلئے ایسے لہجے اور سیاسی رویے سے گریز کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔ جو انکے شخصی تاثر اور امیج کیلئے ہلاکت خیز ہو۔