محترم قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کے بیس بائیس سال مکمل کرنے کے بعد بطریق احسن رخصت ہو گئے ۔ قاضی صاحب نے جب منصب امارت سنبھالا تو راقم نے انہیں ہدیہ تبریک پیش کیا جس کے جواب میں قاضی صاحب نے ازراہ انکساری اپنے ذاتی خط کے ذریعہ ارشاد فرمایا-:
’’میری سیاست کا آغاز تو اس وقت ہوا تھا جب میں اسلامی جمعیت طلباء پشاور کا سربراہ بنا تھا اور آپ نے روزنامہ ’’شہباز‘‘ میںصفحہ اول پر میرا بیان شائع کیا تھا‘‘یہ بات بھی کوئی 45 سال پہلے کی تھی۔جو قاضی صاحب کو یاد رہ گئی۔ اسکے بعد قاضی صاحب کی تمام سیاسی زندگی اور اسکے شب وروز ہمارے سامنے گزرے حکمرانوں سے ٹکرانا‘ قیدوبند کے مصائب برداشت کرنا‘ مظلوم کشمیریوں کی جان پرکھیل کر مدد کرنا‘ آفات سماوی کے ستائے ہوئے اور دوسرے ستم رسیدہ افراد کی مدد کرنا ٗ الخدمت فائونڈیشن یا دوسرے ذرائع سے فلاحی عوامی کاموں پر سالانہ 60 کروڑ روپیہ صرف کرنا‘ (یہ روپیہ امریکہ یا کسی غیر ملک نے نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی اپنی تنظیم اور اسکے کارکنوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے۔) اختلاف رائے کے باوجود جس بات کو حق اور سچ سمجھااسکا برملا اظہارکر دینا ٗ دنیائے اسلام کیساتھ روابط رکھنا اور روابط کے دوران میں پاکستان اور اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کے مسائل ومصائب کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنا ان کا اور انکی جماعت کا خاصہ رہا ہے ۔اسی طرح جماعت کی اپنی یہ بھی اپروچ چلی آرہی ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی مشاورت سے انہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار پر لگانا تاکہ یہ سیاسی کارکن مشکل اقتصادی حالات میں اپنے موقف کے برعکس حوصلہ نہ ہار دیں وغیرہ … ہاں! یہ ضرور ہے کہ قاضی صاحب کئی بار انتہائے خلوص میں بعض حدود کو بھی پھاند جاتے رہے اسی وجہ سے ان کے بہت سے ایجنڈے تشنہ تکمیل رہے یا انہوں نے انکے سامنے ہتھیارڈال دیئے اور پھر انہیں فراموش ہی کر دیا گیا۔ ان کے بعض دوست اور نیازمند ان کی ایسی ’’انتہا پسندیوں‘‘ کو اس لئے نظرانداز کر دیتے رہے کہ امارتی ذمہ داریوں کے آخری سالوں کے دوران میں بلڈپریشر تو انہیں پہلے ہی سے تھا اسکے ساتھ عارضہ قلب بھی لاحق ہو گیا اور انہیں ایک یا دو بار بائی پاس کرانا پڑے ایک بار تو بندہ نے بھی ڈاکٹرز ہسپتال لاہور میں انکی مزاج پرسی کی تاہم انسان کے اندر تڑپ اور جذبہ موجزن ہو تو علالت ٗ ضعف اور کمزوری سنگ راہ نہیں بن سکتے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ قاضی صاحب ’’رومانوی ادبی مزاج کے محاذ‘‘ پر ذرا کشادہ قلب واقع ہوئے ہیں یعنی وہ کٹھ مُلاّ قسم کی’’ چیز‘‘ نہیں ہیں چنانچہ قاضی صاحب کو جہاں ایک طرف اقبالؒکے اردو اور فارسی کلام پر عبور حاصل ہے وہیں وہ فیض اور احمد فراز کے کلام سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں احمد فراز کا تعلق چونکہ پشاور سے تھا اور وہ قاضی صاحب کے ہم عمر ہی تھے اسلئے وہ تمام تر ’’شرعی حدود وقیود‘‘ کوبرقرار رکھتے ہوئے بے تکلفانہ طور پر احمد فراز سے ملتے احمد فراز کے ساتھ انکی ایک یادگار تصویر راقم کے پاس موجود ہے اس میں احمد فراز اور قاضی صاحب بے تکلف دوستوںکی طرح بے باکانہ قہقہہ زن دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اتفاقاً جناب ارشاد احمد حقانی جب صدر جناب سردار فاروق لغاری کے (سہ ماہی عبوری) وزیر اطلاعات تھے تو اپنی تقاریر کا مجموعہ شائع کرایا ان تقاریر میں انہوں نے کسی تعلیمی مجلس کے موقع پر فیض احمد فیض کی ایک مرصع نظم پیش کی تھی لیکن ساتھ ہی ’’حفظ ماتقدم‘‘ کے طور پر لکھ دیا تھا کہ ان سے پہلے یہ نظم قاضی حسین احمد صاحب نے کسی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران پڑھی تھی۔ اس طویل پس منظر کی روشنی میں آج سے آٹھ دس سال قبل جب قاضی صاحب بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان پشاور تشریف لائے تو راقم نے مرکز اسلامی پشاور میں ان سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا-:
’’ہماری دینی اور سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا عصر حاضر کے تقاضوں کے قطعی ہم آہنگ نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دینی اور سیاسی جماعت دینی اور سیاسی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اقتصادی ٗ صنعتی ٗتجارتی ٗ زرعی ٗ سائنسی ٗ فنی اور انجینئرنگ کے محاذوں پر بھی اپنا پروگرام پیش کرے‘‘ راقم نے کہا ’’بالخصوص جماعت اسلامی اس لئے ایسا کرے کیونکہ کسی دوسری دینی یا سیاسی جماعت کے پاس ایسی تنظیم نہیں جس کا جماعت اسلامی کی طرح اپنا ایک جامع سیکرٹریٹ موجود ہو اس لئے وہ یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے‘‘ راقم نے مزید کہا :
’’ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار (غالباً) 18بیس من فی ایکڑ ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار ستراسی من فی ایکڑ ہے ٗ آج بھارتی پنجاب میں ڈیمز کی وجہ سے ہریانہ سمیت دوسرے مقامات پر کاشتکاروں کو مفت بجلی مہیا کی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں کاشتکاروں کیلئے فی یونٹ بجلی کی قیمت کا جو حشر ہو رہا ہے وہ سب پر واضح ہے… میں ’’زور خطابت‘‘ سے کام لینے سے پہلے ایک لطیفہ انہیں تو نہ سنا سکا آپ کو سنائے دیتا ہوں-:
’’چند سال قبل بھارتی پنجاب کی زرعی یونیورسٹی کے خالصہ جی وائس چانسلر نے فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے خاص انداز میں زندہ دلی سے کہا:
’’میں بھی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا فارغ التحصیل ہوں۔ تمام تجربات میں نے یہیں سے حاصل کئے ۔ ہمارے پنجاب اور آپ کے پنجاب کی زمین ٗ پانی اور ہوا ایک ہی طرح کی ہے لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فی ایکڑ گندم 80-75 من فی ایکڑ ہے اور آپ کے ہاں اٹھارہ بیس من فی ایکڑ ہے؟‘‘
اور پھر مخصوص بے تکلفانہ انداز میں کہنے لگے
اوئے بھرائو …اے دسّو سکھ تُسی کو اسی آں؟‘‘
یعنی …او بھائیو ! یہ بتائو سکھ (بے وقوف) تم ہو یا سکھ (بے وقوف) ہم ہیں؟‘‘ یہ لطیفہ ہمارے لئے واقعی چشم کشا ہونا چاہئے۔ اس لطیفہ سے قطع نظر میں نے عرض کیا-:
’’بھارت اور چین جاپان کی بات تو چھوڑیئے میں نے یورپ اور امریکہ کی سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھے ہوئے ہیں جن میں انتخابی مہم کے دوران میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور خلائی پروگراموں کے علاوہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافوں اجتماعی فلاحی اقدامات کا خصوصی ذکر کیا جاتا ہے‘‘ اور اپنے بعض مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’قاضی صاحب ! اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور کٹھن مسئلہ اقتصادی بدحالی ٗ غربت ٗ افلاس ٗ پسماندگی اور عالمی دریوزہ گری ہے اس کا خاتمہ ترقیاتی منصوبوں ٗانرجی کرائسس کے خاتمے اور آبی وسائل کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
اسکے جواب میں قاضی صاحب جو حسب معمول سادہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے ہنستے ہوئے کہنے لگے-:
’’فاروق صاحب ! یہ تو آپ بہت ٹھنڈی باتیں کر رہے ہیں‘‘
میں نے عرض کیا-:
’’قاضی صاحب ! قومیں ٹھنڈی باتوں سے ہی بنا کرتی ہیں…‘‘لیکن قاضی صاحب کی فکرر سا میں یہ بات نہیں آرہی تھی
ڈیموکریٹ گدھا :
پاکستان جس طرح ان دنوں پریشان کن مسائل سازشوں اور داخلی تضادات کا شکار ہے اس پر راقم کو کماحقہ دسترس نہیں ہے تاہم ایک عام پاکستانی کی طرح غور وفکر ضرور کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ امریکہ جو اس وقت اقتصادی اور عسکری لحاظ سے سپرپاور بنا ہوا ہے اسکی ان کامیابیوں کے پس پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟یہ میری پرانی سوچ ہے سب سے پہلے اس کا ذکر میں نے اپنے 1958ء کے سفرنامہ امریکہ بعنوان ’’لنکن کے وطن میں‘‘ کیا ہے لیکن امریکہ کی موجودہ حکمران سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی جس کے ان دنوں سیاہ فام اسلامی پس منظر یا مسلمان خاندان اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے صدر بارک حسین اوبامہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے ہیں اور اپنے اس پس منظر کا ترکی اور دوسرے ممالک کے دورے کے دوران میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ (جاری ہے)
’’میری سیاست کا آغاز تو اس وقت ہوا تھا جب میں اسلامی جمعیت طلباء پشاور کا سربراہ بنا تھا اور آپ نے روزنامہ ’’شہباز‘‘ میںصفحہ اول پر میرا بیان شائع کیا تھا‘‘یہ بات بھی کوئی 45 سال پہلے کی تھی۔جو قاضی صاحب کو یاد رہ گئی۔ اسکے بعد قاضی صاحب کی تمام سیاسی زندگی اور اسکے شب وروز ہمارے سامنے گزرے حکمرانوں سے ٹکرانا‘ قیدوبند کے مصائب برداشت کرنا‘ مظلوم کشمیریوں کی جان پرکھیل کر مدد کرنا‘ آفات سماوی کے ستائے ہوئے اور دوسرے ستم رسیدہ افراد کی مدد کرنا ٗ الخدمت فائونڈیشن یا دوسرے ذرائع سے فلاحی عوامی کاموں پر سالانہ 60 کروڑ روپیہ صرف کرنا‘ (یہ روپیہ امریکہ یا کسی غیر ملک نے نہیں بلکہ جماعت اسلامی کی اپنی تنظیم اور اسکے کارکنوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے۔) اختلاف رائے کے باوجود جس بات کو حق اور سچ سمجھااسکا برملا اظہارکر دینا ٗ دنیائے اسلام کیساتھ روابط رکھنا اور روابط کے دوران میں پاکستان اور اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کے مسائل ومصائب کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرنا ان کا اور انکی جماعت کا خاصہ رہا ہے ۔اسی طرح جماعت کی اپنی یہ بھی اپروچ چلی آرہی ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی مشاورت سے انہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار پر لگانا تاکہ یہ سیاسی کارکن مشکل اقتصادی حالات میں اپنے موقف کے برعکس حوصلہ نہ ہار دیں وغیرہ … ہاں! یہ ضرور ہے کہ قاضی صاحب کئی بار انتہائے خلوص میں بعض حدود کو بھی پھاند جاتے رہے اسی وجہ سے ان کے بہت سے ایجنڈے تشنہ تکمیل رہے یا انہوں نے انکے سامنے ہتھیارڈال دیئے اور پھر انہیں فراموش ہی کر دیا گیا۔ ان کے بعض دوست اور نیازمند ان کی ایسی ’’انتہا پسندیوں‘‘ کو اس لئے نظرانداز کر دیتے رہے کہ امارتی ذمہ داریوں کے آخری سالوں کے دوران میں بلڈپریشر تو انہیں پہلے ہی سے تھا اسکے ساتھ عارضہ قلب بھی لاحق ہو گیا اور انہیں ایک یا دو بار بائی پاس کرانا پڑے ایک بار تو بندہ نے بھی ڈاکٹرز ہسپتال لاہور میں انکی مزاج پرسی کی تاہم انسان کے اندر تڑپ اور جذبہ موجزن ہو تو علالت ٗ ضعف اور کمزوری سنگ راہ نہیں بن سکتے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ قاضی صاحب ’’رومانوی ادبی مزاج کے محاذ‘‘ پر ذرا کشادہ قلب واقع ہوئے ہیں یعنی وہ کٹھ مُلاّ قسم کی’’ چیز‘‘ نہیں ہیں چنانچہ قاضی صاحب کو جہاں ایک طرف اقبالؒکے اردو اور فارسی کلام پر عبور حاصل ہے وہیں وہ فیض اور احمد فراز کے کلام سے بھی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں احمد فراز کا تعلق چونکہ پشاور سے تھا اور وہ قاضی صاحب کے ہم عمر ہی تھے اسلئے وہ تمام تر ’’شرعی حدود وقیود‘‘ کوبرقرار رکھتے ہوئے بے تکلفانہ طور پر احمد فراز سے ملتے احمد فراز کے ساتھ انکی ایک یادگار تصویر راقم کے پاس موجود ہے اس میں احمد فراز اور قاضی صاحب بے تکلف دوستوںکی طرح بے باکانہ قہقہہ زن دکھائی دیتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اتفاقاً جناب ارشاد احمد حقانی جب صدر جناب سردار فاروق لغاری کے (سہ ماہی عبوری) وزیر اطلاعات تھے تو اپنی تقاریر کا مجموعہ شائع کرایا ان تقاریر میں انہوں نے کسی تعلیمی مجلس کے موقع پر فیض احمد فیض کی ایک مرصع نظم پیش کی تھی لیکن ساتھ ہی ’’حفظ ماتقدم‘‘ کے طور پر لکھ دیا تھا کہ ان سے پہلے یہ نظم قاضی حسین احمد صاحب نے کسی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران پڑھی تھی۔ اس طویل پس منظر کی روشنی میں آج سے آٹھ دس سال قبل جب قاضی صاحب بطور امیر جماعت اسلامی پاکستان پشاور تشریف لائے تو راقم نے مرکز اسلامی پشاور میں ان سے ملاقات کی اور ان سے عرض کیا-:
’’ہماری دینی اور سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا عصر حاضر کے تقاضوں کے قطعی ہم آہنگ نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دینی اور سیاسی جماعت دینی اور سیاسی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اقتصادی ٗ صنعتی ٗتجارتی ٗ زرعی ٗ سائنسی ٗ فنی اور انجینئرنگ کے محاذوں پر بھی اپنا پروگرام پیش کرے‘‘ راقم نے کہا ’’بالخصوص جماعت اسلامی اس لئے ایسا کرے کیونکہ کسی دوسری دینی یا سیاسی جماعت کے پاس ایسی تنظیم نہیں جس کا جماعت اسلامی کی طرح اپنا ایک جامع سیکرٹریٹ موجود ہو اس لئے وہ یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے‘‘ راقم نے مزید کہا :
’’ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار (غالباً) 18بیس من فی ایکڑ ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار ستراسی من فی ایکڑ ہے ٗ آج بھارتی پنجاب میں ڈیمز کی وجہ سے ہریانہ سمیت دوسرے مقامات پر کاشتکاروں کو مفت بجلی مہیا کی جا رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں کاشتکاروں کیلئے فی یونٹ بجلی کی قیمت کا جو حشر ہو رہا ہے وہ سب پر واضح ہے… میں ’’زور خطابت‘‘ سے کام لینے سے پہلے ایک لطیفہ انہیں تو نہ سنا سکا آپ کو سنائے دیتا ہوں-:
’’چند سال قبل بھارتی پنجاب کی زرعی یونیورسٹی کے خالصہ جی وائس چانسلر نے فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے اپنے خاص انداز میں زندہ دلی سے کہا:
’’میں بھی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا فارغ التحصیل ہوں۔ تمام تجربات میں نے یہیں سے حاصل کئے ۔ ہمارے پنجاب اور آپ کے پنجاب کی زمین ٗ پانی اور ہوا ایک ہی طرح کی ہے لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فی ایکڑ گندم 80-75 من فی ایکڑ ہے اور آپ کے ہاں اٹھارہ بیس من فی ایکڑ ہے؟‘‘
اور پھر مخصوص بے تکلفانہ انداز میں کہنے لگے
اوئے بھرائو …اے دسّو سکھ تُسی کو اسی آں؟‘‘
یعنی …او بھائیو ! یہ بتائو سکھ (بے وقوف) تم ہو یا سکھ (بے وقوف) ہم ہیں؟‘‘ یہ لطیفہ ہمارے لئے واقعی چشم کشا ہونا چاہئے۔ اس لطیفہ سے قطع نظر میں نے عرض کیا-:
’’بھارت اور چین جاپان کی بات تو چھوڑیئے میں نے یورپ اور امریکہ کی سیاسی جماعتوں کے منشور دیکھے ہوئے ہیں جن میں انتخابی مہم کے دوران میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور خلائی پروگراموں کے علاوہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافوں اجتماعی فلاحی اقدامات کا خصوصی ذکر کیا جاتا ہے‘‘ اور اپنے بعض مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’قاضی صاحب ! اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور کٹھن مسئلہ اقتصادی بدحالی ٗ غربت ٗ افلاس ٗ پسماندگی اور عالمی دریوزہ گری ہے اس کا خاتمہ ترقیاتی منصوبوں ٗانرجی کرائسس کے خاتمے اور آبی وسائل کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
اسکے جواب میں قاضی صاحب جو حسب معمول سادہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے ہنستے ہوئے کہنے لگے-:
’’فاروق صاحب ! یہ تو آپ بہت ٹھنڈی باتیں کر رہے ہیں‘‘
میں نے عرض کیا-:
’’قاضی صاحب ! قومیں ٹھنڈی باتوں سے ہی بنا کرتی ہیں…‘‘لیکن قاضی صاحب کی فکرر سا میں یہ بات نہیں آرہی تھی
ڈیموکریٹ گدھا :
پاکستان جس طرح ان دنوں پریشان کن مسائل سازشوں اور داخلی تضادات کا شکار ہے اس پر راقم کو کماحقہ دسترس نہیں ہے تاہم ایک عام پاکستانی کی طرح غور وفکر ضرور کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ امریکہ جو اس وقت اقتصادی اور عسکری لحاظ سے سپرپاور بنا ہوا ہے اسکی ان کامیابیوں کے پس پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟یہ میری پرانی سوچ ہے سب سے پہلے اس کا ذکر میں نے اپنے 1958ء کے سفرنامہ امریکہ بعنوان ’’لنکن کے وطن میں‘‘ کیا ہے لیکن امریکہ کی موجودہ حکمران سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی جس کے ان دنوں سیاہ فام اسلامی پس منظر یا مسلمان خاندان اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے صدر بارک حسین اوبامہ کی صورت میں دنیا کے سامنے آئے ہیں اور اپنے اس پس منظر کا ترکی اور دوسرے ممالک کے دورے کے دوران میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ (جاری ہے)