جمعرات ، 25 صفرالمظفر1444ھ،22 ستمبر 2022 ئ

انجلینا جولی کا سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ
پاکستان سے پاکستانیوں سے محبت کرنے والی ہماری معزز مہمان ہالی وڈ کی ممتاز اداکارہ انجلینا جولی ایک بارپھر پاکستان آئی ہیں۔ انہیں دیکھ کر تو بہت سے سیلاب زدگان جو انگلش فلموں کے شائقین ہیں اپنا درد کچھ دیر کے لیے بھول گئے ہوں گے۔ یہ در د دل رکھنے والی خاتون ہیں جو پہلے 2005 ءاور 2010 ءمیں بھی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پاکستان آئیںتھیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان میں ہمارے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے انہیں سیلاب زدہ علاقوں کے دورے اور وہاں کے تباہ حال لوگوں کے ساتھ ملانے سے زیادہ اپنے گھر والوں سے ملانے اوران کے ساتھ تصویریں بنانے میں بھی زیادہ دلچسپی دکھائی۔ جس پر انجلینا جولی نے بڑی حیرت کا اظہار کیا اور واپس جاکر پاکستان اشرافیہ کی دونمبری اور دوغلی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ کہ لوگ خود اعلیٰ زندگی بسرکرتے ہیں انہیں ہر طرح کی آسائیشیں اور سہولت حاصل ہے۔ مہنگے لباس،گاڑی اور گھر ان کی کمزوری ہے۔ انہیں سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور تباہ حال سیلاب زدگان کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا اظہار اگرانجلینا جولی نہ بھی کرتیں تو دنیا کے دیگر ممالک کے سرکاری افسران اور حکام کرتے رہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران کسی اور دنیا میں رہتے ہیں اور عوام کسی اور دنیا کے باسی لگتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اس بار انجلینا جولی کو کھل کر عوام کے ساتھ ملنے ملانے کے ساتھ کوئی اپنے گھر والوں دوستوں کے ساتھ فوٹوسیشن پراصرار کرتاہے یانہیں۔ انجلینا جولی ہالی وڈ کی بے مثال اداکارہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک حساس دل بھی رکھتی ہیں۔ اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے وہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کی نمائندہ ہیں۔ اب دادو اوربدین میں ا نہوں نے سیلاب زدہ علاقوں کادورہ کیا۔ سیلاب زدگان کے خیموں میں جاکر وہاں متاثرہ افراد سے خاص طورپر خواتین اور بچوں سے ملاقات کی ان کے مسائل پوچھے۔ اس کے برعکس ہمارے اپنے عوام کے غمخوار سیاستدان اس وقت جلسے جلوسوں یا امداد کی اپیلیں کرتے پھر تے ہیں۔
٭٭٭٭
پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کا پارلیمنٹ لاجز خالی کرنے سے انکار
یہ عجیب دھونس دھاندلی ہے۔ مستعفی ہونے کے بعد ان کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ وہ اسی طرح پارلیمنٹ لاجز کے کمرے خالی کرتے۔ جس طرح بڑے طمطراق سے انہوں نے یک زبان ہو کر اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور پارلیمنٹ سے اکٹھا نکل گئے تھے۔ اب اس طرح انہیں یک جان ہو کر پارلیمنٹ لاجز سے بوریا بستر گول کر کے اکٹھا نکل جانا چاہیے تھا۔ مگر قربان جائیے ان مراعات اور آسائشوں کے جو پارلیمنٹ لاجز میں دستیاب ہیں۔ جہاں قانون نافذ کرنے والے پر بھی نہیں مار سکتے۔ جہاں ہمہ وقت ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جس کا پرتوبھی لاجز سے باہر دستیاب ہو تو بندہ اندر ہو سکتا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے جب پی ٹی آئی والے اس پارلیمنٹ کے ممبر ہی نہیں رہے تو وہ ممبران کے لیے دستیاب سہولتوں سے کیوں دامن آلودہ کر رہے ہیں۔ کیا خان صاحب کو یہ کرپشن اور دو نمبری نظر نہیں آتی وہ حکم کیوں نہیں دیتے اپنے سابق ارکان پارلیمنٹ کو کہ اس دلدل سے باہر نکل آئیں۔ شنید تو یہ بھی ہے اندرون خانہ ہر کارے بتاتے ہیں یہ سب انقلابی جماعت کے ممبران ابھی تک انقلاب سے بے نیاز ہو کر تمام تنخواہیں اور مراعاتیں بھی ماہانہ بنیادوں پر حاصل کرتے ذرا بھی نہیں شرماتے۔ اس پر تو ہم صرف پڑھتا جا شرماتا جا ہی کہہ سکتے ہیں ورنہ فراز نے درست کہا تھا
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نبھاتے ہیں
ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی
اب کوئی اگر اس پر ”وچوں وچوں کھائی جا اتوں رولا پائی جا“ بھی کہے تو اس میں کچھ غلط نہ ہو گا۔ یہ عجیب دودھ پینے والے انقلابی خان صاحب نے اپنی چھتری تلے جمع کئے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭
یونیورسٹی طلبا و طالبات زچہ و بچہ کیلئے امدادی اشیاءکے 20 لاکھ بیگ بنائیں ۔ احسن اقبال
یہ حکم حاکم مرگ مفا جات والا بیان دیتے وقت وزیر منصوبہ بندی و ترقی کو ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ یہ جو ملک کی یونیورسٹیوں میں 25 لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں وہ آپ کی طرح لینڈ لارڈ نہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو سفید پوش ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر وہ بچوں کے تعلیمی اخراجات ادا کرتے ہیں۔ وہ کہاں سے امدادی اشیاءکے بیگ بنا کر دیں گے۔ یہ زچہ و بچہ کے لیے خوراک و ادویات کیا مفت ملتی ہیں۔ یہ سب مہنگے داموں ملتا ہے۔ پہلے ہی ادویات کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ چکی ہیں۔ جس ملک میں پیناڈول اور پیرا سیٹامول کی گولیاں دستیاب نہ ہوں مہنگے داموں ملتی ہوں وہاں سامان سے بھرا بیگ کون مفت میں تیار کرے گا۔ کیا بہتر نہیں کہ احسن اقبال صاحب اور ان جیسے لاکھوں کروڑ پتی فی گھر 100 امدادی بیگ تیار کر کے سیلاب زدگان میں تقسیم کریں۔ غریب بچوں پر بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے یہ عجب تماشا ہے۔ جو گھر والے ماہانہ گھر کا راشن خریدنے سے معذور ہو چکے ہیں وہ کہاں سے یہ رقم لائیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ طالب علموں کی بجائے اشرافیہ سے مدد طلب کی جائے ۔ ان سے فی گھر 100 بیگ جو امدادی اشیا سے بھرے ہوں لے کر تقسیم کئے جائیں ۔ اس طرح ایک لاکھ روپے فی گھر ان پر کوئی بوجھ بھی نہ ہو گا۔ اتنے کے تو وہ ماہانہ ٹشو پیپر استعمال کرتے ہیں۔ بڑے بڑے تاجر، دکانداروں کی مالداروں کی فہرست بنا کر ان سے یہ کام لیا جائے یقین کریں اگر ان کی فوٹو اور نام بھی بیگ پر درج کرنا پڑیں تو کریں۔ وہ تو ہنسی خوشی اس طرح سینکڑوں بیگ بنا کر دیں گے کہ ان کی مفت میں پبلسٹی ہو رہی ہے۔ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی تعداد بھی ہزار سے اوپر ہے۔ وہ بھی بڑی خوشی سے ایسے بیگ تیار کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ کیونکہ ہم نیکی سے زیادہ نام کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
٭....٭....٭