جنرل اسمبلی کے اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کے ازالہ کی مثبت سوچ
نیویارک میں جاری یواین جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں کو فوکس کرتے ہوئے اس سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کو سیلاب اور بعض عوارض کی شکل میں پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گرئترس نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو اس وقت خوراک کے بحران کا سامنا ہے‘ ہمیں یوکرائن جنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ اسی طرح کھاد کے بڑھتے نرخوں سے غذائی اجناس میں کمی جیسے مسائل درپیش ہیں۔ انکے بقول عالمی سطح پر درپیش مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمہ دار ممالک اسکے بدترین نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہمیں مستقبل کیلئے سمندروں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ہمارا سیارہ جل رہا ہے‘ لوگ تکلیف میں ہیں۔ پاکستان میں سیلاب سے بہت تباہی ہوئی ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے کئی ممالک کو خطرہ ہے۔ اسکے باعث غیرمعمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں اور متاثرہ ممالک عالمی برادری کی جانب سے ٹھوس اقدامات کے منتظر ہیں۔ یواین سیکرٹری جنرل نے باور کرایا کہ پائیدار ترقی کیلئے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں خوراک کی قیمتوں میں ریلیف کے فوسل فیول پر ٹیکسز لگانے پر زور دیا۔
بے شک نظام کائنات ربِ کائنات کی حکمت و تدبر سے ہی چل رہا ہے تاہم اس دھرتی پر جو مسائل انسانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں انکے حل کیلئے بھی انسانوں نے ہی تردد کرنا ہے۔ اس دھرتی پر قدرت کے جو بھی وسائل موجود ہیں‘ انہیں حسن و تدبر کے ساتھ بروئے کار لاکر خلقِ خدا کیلئے آسودگیاں پیدا کی جا سکتی ہیں اگر انسان اپنے ذہن رسا سے کام لے کر انسانی ضروریات کے حصول کیلئے کھوج اور تحقیق کو بنیاد بنائے تو بے تدبیریوں کے نتیجہ میں ہونیوالے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔
بے شک اس دھرتی پر انسانی آبادی وسعت پذیر ہو چکی ہے چنانچہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ انکی ضروریات پوری کرنیوالے وسائل بتدریج کم ہو رہے ہیں اور یہ صورتحال اس کرہ¿ ارض پر بھوک‘ بیماری‘ تنگدستی اور غربت کے مسائل بڑھا رہی ہے۔ ان مسائل سے پیدا ہونیوالی افراتفری بھی انسانی سوچ پر مضر اثرات مرتب کررہی ہے۔ آج کی دنیا کو حاصل جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے چنانچہ دنیا کے کسی بھی کونے پر انسانوں کیلئے پیدا ہونیوالے مسائل سے پوری دنیا کو پل پل آگاہی رہتی ہے۔ ان میں قدرتی آفات کی شکل میں پیدا ہونیوالے مسائل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حل کے متقاضی ہوتے ہیں چنانچہ آج زیادہ وسائل والے ممالک میں تحقیق و تجسس کے راستے کھل رہے ہیں جس میں جہاں انسانی ضروریات پوری کرنے کیلئے وسائل بڑھانے کیلئے تردد کیا جاتا ہے اور نئے نئے سائنسی تجربات کئے جاتے ہیں وہیں ان تجربات کی بنیاد پر انسانی ذہنوں میں خلفشار بھی پیدا ہوتا ہے جو ان تجربات کا رخ تخریبی سرگرمیوں کی جانب موڑ دیتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کا خناس بھی سرگرم عمل ہو جاتا ہے جو انسانی سرشت میں شامل ہے چنانچہ انسانی برادری آج انہی بکھیڑوں میںالجھ کر ایک دوسرے کی ہلاکت کا اہتمام کر رہی ہے۔ ہر ملک ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی فکر میں ہے اور جو ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر چکے ہیں‘ وہ اس ٹیکنالوجی میں مزید تجربات کررہے ہیں۔ اس دوڑ نے جہاں مختلف خطوں میں طاقت کا توازن بگاڑا وہیں پلانٹس سے نکلنے والی مختلف گیسوں اور زہریلے مادے کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھنے لگی اور عوارض کی شکل میں انسانی جانوں کے درپے ہو گئی۔ آج یہی ماحولیاتی آلودگی موسمیاتی تبدیلیوں پر منتج ہو رہی ہے جس سے بعض خطوں میں درجہ حرارت شدت کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور بعض خطے خشک سالی کا شکار ہو کر قحط کے مناظر سامنے لا رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے ہی انسانی صحت کو نئے نئے عوارض لاحق ہو رہے ہیں جس سے انسانی زندگی کا دورانیہ کم ہونے کا اندیشہ لاحق ہو چکا ہے۔ چونکہ یہ سارے تعمیری اور تخریبی معاملات نظام قدرت سے ہٹ کر انسانی ذہن رسا کے پیدا کردہ ہیں اس لئے انسانوں نے اپنے پیدا کردہ مسائل کا خود حل ڈھونڈنا ہے اور المیہ یہ ہے کہ انسان کی تعمیری سوچ پر اسکی تخریبی سوچ غالب ہو چکی ہے جو اسے جنگ وجدل کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی تناظر میں آج دنیا کے مختلف خطے جنگ و جدل کی سوچ کے تابع خلفشار اور عدم استحکام کا شکار ہیں اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات بتدریج بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بے شک اقوام متحدہ ہی وہ واحد نمائندہ عالمی ادارہ ہے جس کے پلیٹ فارم پر بین الریاستی معاملات و تنازعات کے حل کی جانب پیش رفت کی جا سکتی ہے اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔
آج بعض ممالک کی بڑھتی طاقت و اختیار سے ریاستوں کی خودمختاری اور سلامتی کیلئے ہی خطرات پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان ممالک کی سائنسی تحقیق و تجسس کے نتیجہ میں رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی اس کرہ¿ ارض پر الٹ پھیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسکے پھیلاﺅ کو روکنے کیلئے فوری اور مو¿ثر اقدامات نہ کئے گئے تو مختلف عوارض‘ آلام اور آفات کی شکل میں انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات بھی بڑھتے رہیں گے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ دنیا کی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونیوالے انسانی مسائل اور ان مسائل کے اسباب و محرکات کا بھی ادراک ہو چکا ہے اس لئے آج پاکستان سمیت جو ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں کی زد میں آئے ہیں‘ انکے نقصانات کے ازالہ کیلئے بھی عالمی قیادتیں اور اقوام متحدہ جیسے نمائندہ عالمی ادارے ہی فکرمند ہیں اور اس کیلئے تردد بھی کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں یواین جنرل اسمبلی کے نیویارک میں جاری سالانہ اجلاس کی اہمیت بھی دوچند ہو گئی ہے۔ خود یواین سیکرٹری جنرل گوئترس متاثرہ ممالک کے نقصانات کے ازالہ کیلئے فعال و متحرک ہیں اور اس اجلاس کی صورت میں عالمی قیادتوں کے اجتماع کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا جارہا ہے اور ہر قسم کی معاونت کے اعلانات بھی کئے جارہے ہیں۔ 23 ستمبر کو وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے تو پاکستان کے اٹھائے گئے نقصانات کی تفصیلات بھی بتائیں گے جس سے پاکستان کے متاثرین سیلاب کی بحالی کیلئے اقوام عالم کی جانب سے مزید اقدامات اٹھانے کا راستہ بھی ہموار ہوگا تاہم جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں امریکہ‘ بھارت اور انکے حامیوں کے گھمبیر بنائے گئے کشمیر‘ فلسطین‘ میانمار‘ افغانستان کے مسائل سے توجہ ہرگز نہیں ہٹائی جانی چاہیے کیونکہ برتری کے زعم والی تخریبی سوچ کے پیدا کردہ یہ مسائل بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کو تدبر کے ساتھ یہ مسائل حل کراکے اپنی مو¿ثر عالمی اتھارٹی والی حیثیت بہرصورت تسلیم کرانی چاہیے۔