ضلع وہاڑی کی سیاسی صورتحال
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ضلع وہاڑی میں بھر پور سیاسی گہما گہمی رہی اور جنوبی پنجاب بھر کی سیاست کا رخ ضلع وہاڑی کی جانب رہا پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ضلع وہاڑی کا دورہ کیا اور تحصیل میلسی کے قصبہ جلہ جیم میں ورکر زکنونشن کے نام پر ایک کامیاب سیاسی پاور شو کیا کرونا وائرس کی موجودہ لہر میں حکومتی سطح پر سماجی فاصلے کو یقینی بنا نے کے لیے اسی دوران تعلیمی ادارے ،پارک،ریسٹورنٹس ،پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر پابندیاں عائد کی گئیں لیکن حیرت انگیز طور پر حکومت کی جانب سے بلاول بھٹوزرداری کو سیاسی اجتماعات کی اجازت دی گئی اور ان کے اجتماعات میں قابل ذکر عوام کی تعداد شریک ہوتی رہی یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ کے بعد ملک بھر میں سب سے زیادہ شرح ملتان میں سامنے آئی ہے اور کرونا وائرس کے مرض کے پھیلنے میں اضافہ ہوا ہے اور ملتان میں شرح 9فیصد تک جا پہنچی ہے تاہم سیاست کا کھیل چونکہ بے رحم ہے اور سیاستدانوں کو عوام کی زندگیوں سے زیادہ اپنی سیاست عزیز ہے اس لیے بلاول بھٹوزرداری زوروشور سے جنوبی پنجاب میں مصروف عمل رہے جس کے بعد تجزیہ نگاروں نے پی پی پی کی دوبارہ جنوبی پنجاب اور پنجاب میں سیاسی اٹھان کی پیشین گوئیاںشروع کر دیں لیکن اس دورہ کے ختم ہو تے ہی کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج نے ان پیشین گوئیوں پر پانی پھیر دیا اور پی پی پنجاب میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی تاہم جلہ جیم کے ورکرز کنونشن کے بعد میلسی میں پی پی پی کے مردہ گھوڑے میں کچھ جان پڑ گئی اور جیالے سر گرم ہو گئے لیکن بلاول بھٹوزرداری کے دورہ میلسی کے دوران سابق ایم پی اے سردار محمد خان کھچی کے سیاسی جا نشین اور صوبائی حلقہ پی پی 236سے امیدوار ایم پی اے سر دار محمد عمران خان کھچی پارٹی چیئرمین کی کسی تقریب میں نظر نہیں آئے اور نہ ہی ورکرز کنونشن میں شر کت کی ورکرز کنونشن کے بعد ضلع بھر کے مختلف افراد کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کے پروگرام کے لیے پارٹی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم وصول کر نے کے الزامات بھی سامنے آئے اور ضلع وہاڑی کے جیالوں نے مقامی قیادت پر ورکر کنونشن کے نام پر لاکھوں روپے وصول کر نے کے الزامات عائد کرتے ہو ئے کہا کہ رقوم لینے کے باوجود ان کی پارٹی چیئرمین سے ملاقات نہیں کرائی گئی او ر ضلع وہاڑ ی کے رہائشی ایک اوورسیز جیالے کی جانب سے 10لاکھ روپے تک فراہم کرنے اور ملاقات نہ کر انے کی افواہیں بھی گر دش کر رہی ہیں جو مختلف وٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا کی زینت بھی بنی ہیں تاہم ضلع وہاڑی کی کسی نمایاں سیاسی شخصیت نے بلاول بھٹوزرداری کی آمد پر پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی حالانکہ جیالوں کی جانب سے کنونشن سے قبل علاقے کے مختلف سیاستدانوں کی شمولیت کے نام لیئے جارہے تھے۔
تاہم دورہ وہاڑی سے اگلے روز تحصیل میلسی سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے سابق ایم این اے ممتاز خان بھابھہ مر حوم کے صاحبزادے اور یوسی چیئرمین سنڈھل میاں عمران ممتاز خان بھابھہ نے ملتان میں بلاول بھٹو زرداری سے سابق وزیرا عظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر مخدوم احمد محمود کی موجودگی میں ملاقات کی جسے مقامی میڈیا نے ایک بڑی خبر بنا کر پیش کیا اور خود سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود نے اپنے اپنے سوشل میڈیا پیج پر ان کی شمولیت کی خبر اور تصویر پوسٹ کی لیکن میاں محمد عمران ممتاز خان بھابھہ نے ،،نوائے واقت ،، کے رابطہ پر شمولیت سے صاف انکار کر تے ہو ئے کہا کہ انھوں نے صرف بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی ہے اور اگر شمولیت کی تو پھر وہ اس کے لیے کوئی الگ سے اہتمام کریں گے۔
واضح رہے کہ ان کے والد میاں ممتاز خان بھابھہ 1988میں پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے بنے اور بعد ازاں ان کے چچا اور سسرمیاں نور خان بھابھہ 1993 میں پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن بعد ازاں ان کے محمود حیات ٹوچی سے شدید اختلافات ہو گئے یہ اختلافات تا حال موجود ہیں اس لیئے محمد عمران ممتاز بھابھہ نے پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا واضح رہے کہ محمود حیات ٹوچی کی جارحانہ اور منفی سیاست کی وجہ سے ایک ایک کر کے ان کے تمام اتحادی الگ ہو ئے اور پارٹی چھوڑ دی جس میں ان کے کزن اور قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران اور ممبران شامل ہیں تاہم میاں محمد عمران ممتاز بھابھہ کی اس ملاقات کے رد عمل میں ان کے چچا میاں نور محمد خان بھابھہ کو تحریک انصاف جنوبی پنجاب کی صدارت سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سینٹر عون عباس بپی کو پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کا صدر مقرر کر دیا۔
نور خان بھابھہ نے الیکشن 2013سے قبل موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر محمد عارف علوی کی دعوت پر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ڈاکٹر عارف علوی خود ان کی میلسی موضع ملکو میں واقع رہائشگاہ پر آئے اور انہیں شمولیت کی دعوت دی جس پر وہ پارٹی میں شامل ہو گئے اور اپنے سابقہ حلقہ سے ایم این اے کا الیکشن لڑنے کی تیاری شروع کر دی لیکن اس دوران ضلع وہاڑی کا اہم سیاسی خاندان سابق ضلع ناظم ممتاز خان کھچی کی سربراہی میں تحریک انصاف میں شامل ہو گیا اور 2013 کے الیکشن میں پارٹی نے میلسی ، وہاڑی کی دونوں قومی نشستوں اور میلسی کی صوبائی نشستوں پر کھچی گروپ کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیئے اور جنوبی پنجاب کے صدر نور خان بھابھہ کو نظر انداز کر دیا گیا جس کی بڑی وجہ انتخابی نتائج کے حوالے سے زمینی حقائق تھے اس کے رد عمل میں نور خان بھابھہ نے پارٹی کا صوبائی صدر ہوتے ہوئے آزاد امیدوار چوہدری غضنفرعباس گھلوی کی حمایت کرنے لگے جس پر پارٹی چیئرمین عمران خان ضلع وہاڑی میں جلسہ کے موقع پر خود نور خان بھابھہ کے گھر موضع ملکو آئے اور نواب علی رضا خان خاکوانی کا ہاتھ پکڑ کر ان کے حوالے کیا اور کہا کہ بھابھہ صاحب اس نوجوان کو کامیاب کرائیں گئی 2013 کے الیکشن میں علی رضا خاکوانی کی بھر پور مخالفت کی۔
جس کے نتیجے میں وہ الیکشن میں شکست کھا گئے اسی طرح 2015 میں بلدیاتی الیکشن کے دوران بھی انہوں نے اپنی آبائی یونین کونسل سے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے بھتیجے محمد عمران خان بھابھہ کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑایا ان کی مسلسل شکایات پر اس وقت پارٹی قیادت نے نور خان بھابھہ کو پارٹی صدارت سے ہٹا کر سابق وفاقی وزیر نواب اسحاق خاکوانی کو ان کی جگہ جنوبی پنجاب کی صدارت سونپی تا ہم الیکشن 2018 میں اسحاق خاکوانی کی شکست اور تنظیمی ڈھانچے کی تباہ حالی پر انہیں بھی صدارت سے ہٹادیا گیا اور دوبارہ نور خان بھابھہ کو صدر جنوبی پنجاب بنایا گیا لیکن پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود انہوں نے تنظیم سازی میں دلچسپی نہ لی اور نظریاتی رہنمائوں اور کارکنوں کو نظر انداز کر کے مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو عہدے تقسیم کرنے شروع کر دیئے جس سے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر نظریاتی کارکنوں نے احتجاج شروع کر رکھا تھا اس دوران سینٹ کے انتخابات میں نور خان بھابھہ نے مقامی ایم این اے اورنگزیب خان کھچی اور دیگر ممبران اسمبلی کے ہمراہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اور سینیٹ کا ٹکٹ مانگا لیکن وزیراعظم نے نور خان بھابھہ کی سابقہ پارٹی پالیسیوں اور مسلسل انحراف کی شکایات پر ان کی بجائے عون عباس بپی کو پارٹی ٹکٹ دیدیااور اب بلاول بھٹو زرداری سے ان کے بھتیجے اور داماد کی ملاقات کی خبر سامنے آتے ہی انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تا ہم انہوں نے اپنے ابتدائی رد عمل میں پارٹی قیادت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے عون عباس بپی کو مبارکباد دی ہے لیکن آنے والے دنوں میں ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی سامنے آ سکتا ہے کیونکہ الیکشن 2018 میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایم این اے سعید احمد خان منیس کی حمایت کا فیصلہ کر لیا تھا تا ہم بیٹے کی مخالفت پر اعلان نہ کر سکے جبکہ میاں عمران ممتاز بھابھہ نے سعید احمد خان منیس کی حمایت کی تھی دوسری جانب سابق ضلع ناظم وہاڑی ممتاز خان کھچی نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے بیٹے شہزاد خان کھچی کو اپنے بھتیجے اور مو جودہ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ محمد جہانزیب خان کھچی کی سیٹ سے الیکشن لڑانے کا اعلان کردیا ہے اور شہزاد خان کھچی اس سلسلے میں اپنی انتخابی مہم کو بھی شروع کر چکے ہیں اور وہ بھی ایک مکمل پینل کے ساتھ آنے والے الیکشن میں سامنے آنا چاہتے ہیں ۔
آنے والے دنوں میں کھچی خاندان کی موجودہ سیاسی پالیسی کھل کر سامنے آئے گی اور ہو سکتا ہے کہ دونوں شخصیات کسی بھی سیاسی سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں آمنے سامنے ہوں اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے بھی صوبہ بھر میں تنظیم سازی کا آغاز کر دیا ہے اور آنے والے الیکشن میںپارٹی ٹکٹوں کی تقسیم اور کارکنوں کو منظم کرنے کیلئے آرگنائزنگ کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی ، و سابق ایم این اے سعید احمد خان منیس کو ملتان ڈویژن کی کمیٹی کا ممبر نامزد کیا گیا ہے جو ضلع وہاڑی میں پارٹی کو منظم کریں گے جبکہ دوسری جانب ایم این اے اورنگزیب خان کھچی اور صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ محمد جہانزیب خان کھچی نے تحصیل میلسی کے لوگوں کو ساڑھے 3ارب روپے کی 242 کلو میٹر طویل سڑکوں کے منصوبوں کی خوشخبری سنائی ہے جس کے ٹینڈرز بھی جاری ہو چکے ہیں ان منصوبوں کی تکمیل سے تحصیل میلسی کی برسوں کی محرومیاں ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے تا ہم ممبران اسمبلی کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانا ہو گی اور اپنی تمام تر توجہ عوامی مسائل کے حل پر مرکوز کرنا ہو گی کیونکہ ان کے اقتدار کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے ۔