مہنگائی کی نئی لہر
یوں تو ماضی میں ہر دور حکومت میں مہنگائی ہوتی رہی ہے اور عوام چیختے چلاتے رہے ہیں لوگوں نے احتجاج بھی کیا اور سٹرکوں پر بھی نکلتے تھے جس کی وجہ سے حکومتیں بھی چیزیں مہنگی کرنے کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرتیں خفیہ ٹیکس سیشن اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا جاتا کوشش کی جاتی پٹرولیم منصوعات سمیت اشیاء خوردو نوش کی اہم ترین چیزوں گھی، آٹا ، چینی ، چاول کی قیمتوں میں اضافوں میں محتاظ رویہ اختیار کیاجائے اور اضافے کی رفتار کو کم رکھا جائے تاوقت کہ لوگوں کے آہستہ آہستہ عادی ہونے جانے کے بعد پھر قیمتوں میں اضافہ کرکے سرمایہ طبقہ اور اشرفیہ کو فائدہ پہنچایا جاتا رہاجبکہ سیاسی جماعتیں بھی ان عوامی ایشوز کو کیش کرکے برسراقتدار حکومتوں کے خلاف بطور ٹول استعمال کرتی رہی ہیں ان میں پیپلز پارٹی کے کرشماتی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ ۔۔روٹی کپڑااور مکان عوام ی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مشہور و مقبول ہوا، اسی طرح سیاسی جماعتوں نے بے روگاری، ہائوسنگ سکیم، یلو کیپ سکیم، غربت ،آشیانہ سکیم ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جبکہ موجودہ حکومت نے احساس پروگرم، سونامی ٹریز، کروڑوں نوکریاں اور مکانات ، میرٹ، انسداد کرپشن کے سلوگن متعارف کروائے جو نئے نہیں ہیں مگر معصوم عوام کے لیے کسی ’ ’سنہری خواب‘‘ سے کم نہیں ہیں اور عوام پاگلوں کی طرح ان سنہری خوابوں کی کے پیچھے دوڑ پڑے ،حقیقت تو یہ ہی ہے کہ موجودہ حکومت نے جن چیزوں کو ایشوز بناکر عوام کی ہمدریاں حاصل کیں اورالیکشن کے بعد اقتدار حاصل کیا اب وہ ہی چیزیں خود بھی کررہی ہے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کی شرائط پر عمل کیا جارہا ہے زیادہ کیا کہنا جو کچھ عوامی حکومت میں ہورہا ہے سب جانتے ہیں ماضی کی طرح عوام الگ ہیں اور حکومت الگ ، ماضی کی سرکار کی طرح دونوں کی ترجیحات اورمفادات متضاد ہیں، ماضی کی حکومتوں میں مہنگائی کی رفتار کم رہی ہے جبکہ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی میں کئی سو گنا کی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے ، حکومت نے کی جانب سے تقریباً ہر چیز پرلگے ٹیکس میں اعلانیہ وخفیہ اضافہ کیا گیا، سرکاری فیسوں میں اضافہ کیا گیا ،جرمانوں میں اضافہ کیا ، جبکہ دوسری جانب بجٹ میں چیزیں مہنگی کی جاتی رہی ہیں، منی بجٹ کی طرز پر بھی سرکاری سرکلرز کے زریعے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بین الاقوامی ریٹس اور ڈالرز کی قیمت میں اضافہ کو جواز بناکر ایک ماہ میں دو بارآئیل ریٹس بڑھاہے جارہے ہیں جبکہ سونے پر سہاگہ مہنگائی کے حساب سے سرکاری ملازمین اور نجی شعبہ کے ملازمین اور دیہاڑی دار مزور طبقہ کی آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ، ملک میں رائج نظام اور عملی نظام ایسا بن گیا ہے جو سرمایہ دار طبقہ کو مزید طاقتور اور دولت مند بنارہا ہے اور غربت کو کم کرنے کے بجائے غربت میںاضافہ کا باعث بن رہا ہے الغرض موجودہ حکومتی نظام کے باعث امیر طبقہ امیر تر جبکہ غیر طبقہ غریب ترہوتا جارہا ہے پاکستان کی عوام تیزی سے خط غربت کی لیکر سے نیچے جارہی ہے۔حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کی کمر توڑ کررکھ دی ہے ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے ایک جانب گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا جبکہ دوسری جانب ٹرانسپورٹر نے خود ساختہ کرائے بڑھا دیئے ہیں اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات میں ایک روپے تک اضافہ کی سمری وفاقی کابینہ کو بھجوائی جسے نظر انداز کرتے ہوئے پانچ روپے تک اضافہ کردیا گیا ہے۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل(ایچ ایس ڈی)کی قیمتوں میں 5 روپے اور 5.01 روپے فی لیٹر اور مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل(ایل ڈی او) کی قیمتوں میں 5.46 روپے اور 5 روپے اضافہ کیا گیا۔ پٹرول کی ایکس ڈپو قیمت 118.30 سے بڑھ کر 123.30روپے فی لیٹر سے ہوگئی ہے ۔ پیٹرول زیادہ تر نجی ٹرانسپورٹ ، چھوٹی گاڑیوں ، رکشوں اور دو پہیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ایچ ایس ڈی(ڈیزل) کی ایکس ڈپو قیمت 115.03 روپے فی لیٹر تھی جو 120.20روپے ہو گئی ہے ایچ ایس ڈی کی قیمت کو انتہائی افراط زر سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر بھاری ٹرانسپورٹ گاڑیوں ، ٹرینوں اور زرعی انجنوں جیسے ٹرکوں ، بسوں ، ٹریکٹروں ، ٹیوب ویلوں اور تھریشروں میں استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح ، مٹی کے تیل کی ایکس ڈپوقیمت 86.80 روپے تھی 6.3 فیصد بڑھنے کے بعد یہ قیمت 92.26 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے ۔ مٹی کا تیل زیادہ تر بے ایمان عناصر اسے پٹرول کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور کسی حد تک بہت دور دراز علاقوں میں روشنی کے لیے۔ایل ڈی او کی سابق ڈپو کی قیمت84.77 روپے فی لیٹرتھی اس میں 6.98 فیصداضافہ ہوا یوںیہ 90.69 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ ایل ڈی او فلور ملز اور ایک دو پاور پلانٹس استعمال کرتے ہیں۔اپنے ورکنگ پیپر میں ، اوگرا نے HSD میں 10.5 روپے فی لیٹر اور پٹرول میں Re1 فی لیٹر ، مٹی کے تیل میں 5.46 روپے اور LDO میں 5.92 روپے فی لیٹر اضافے کی سفارش کی تھی۔ تاہم ، حکومت نے پٹرول پر پٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافہ کرکے HSD قیمت سے جزوی بوجھ کو تبدیل کر دیا ۔ پیٹرول اورہائی سپیڈ ڈیزل( ایچ ایس ڈی) دو بڑی مصنوعات ہیں جو ملک میں ان کی بڑے پیمانے پر اور ابھی تک بڑھتی ہوئی کھپت کی وجہ سے حکومت کے لیے زیادہ تر آمدنی پیدا کرتی ہیں۔ اوسط پٹرول کی فروخت 750،000 ٹن فی مہینہ ہے جو کہ ماہانہ 800،000 ٹن HSD کے استعمال کے مقابلے میں ہے۔ مٹی کے تیل اور ایل ڈی او کی فروخت عام طور پر 11،000 اور 2000 ٹن سے کم ہے۔نظر ثانی شدہ طریقہ کار کے تحت ، حکومت تیل کی قیمتوں کو پندرہ روزہ بنیادوں پر نظر ثانی کرتی ہے تاکہ پاکستان اسٹیٹ آئل کی درآمدی لاگت کی بنیاد پر ماہانہ حساب کتاب کے سابقہ طریقہ کار کے بجائے پلاٹ آئل گرام میں شائع ہونے والی بین الاقوامی قیمتوں کو منتقل کیا جا سکے۔