جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس اور گویٹرس کا انتباہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویٹرس نے امریکہ اور چین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ باز رہیں ورنہ ان کے مابین جاری سردجنگ ساری دنیا میں پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے پہلے روز آن لائین افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمیں کورونا ، موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے جبکہ دو طاقتور ملک اس سے نمٹنے میں مدد کرنے کے بجائے آپس میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ عالمی خبررساں ادارے کے مطابق یو این سیکرٹری جنرل نے امریکہ اور چین کو اپنے تنازعات فوری طور پر حل کرنے سے متعلق متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اپنے مکمل طور پر غیر فعال تعلقات بحال نہیں کرتے تو ان دو بڑے اور انتہائی بااثر ممالک کے مابین مسائل باقی دنیا تک پھیل جائیں گے۔ ہمیں ان دو طاقتوں کے مابین ایک فعال تعلق دوبارہ قائم کرنے اور ہر قیمت پر سردجنگ سے بچنے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں پھیلے اور لاکھوں انسانی ہلاکتوں اور مضبوط و مستحکم معیشتوں کی تباہی کا باعث بننے والے کورونا وائرس کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ دوسرا سالانہ اجلاس ہے جس کا آن لائن انعقاد ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں اس نمائندہ عالمی فورم پر کورونا سے عہدہ برآ ہونے اور اقوام عالم کو اس کے مضمرات سے بچانے کے لئے فکر مند ہونا اور عالمی برادری کے باہمی تعاون کے لئے تردد کرنا خوش آئند ہے تاہم یو این سیکرٹری جنرل نے اپنے افتتاحی خطاب میں کورونا کے باوجود دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے مابین جاری سرد جنگ اور مختلف ایشوز پر کشیدگی کی فضا پر عالمی بقاء کے حوالے سے جس تشویش اور فکر مندی کا اظہار کیا ہے وہ یقینا اس نمائندہ عالمی پلیٹ فارم پر سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے جبکہ اس عالمی ادارے کی اپنی ساکھ بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی یقینی بنانے کے معاملہ میں اپنے مؤثر کردار کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ اقوام متحدہ سے پہلے کی نمائندہ عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کو بھی اس کے چند رکن ممالک نے اپنے مفادات کا اسیر بنا لیا تھا جو ریاستوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کا آفاقی اصول لاگو کرانے اور علاقائی و عالمی امن و استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک مربوط اور مؤثر عالمی نمائندہ تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی اور عالمی قیادتوں نے لیگ آف دی نیشنز کی ناکامیوں کے اسباب و محرکاب کو پیش نظر رکھ کر -24 اکتوبر 1945 ء کو اقوام متحدہ کے نام سے نمائندہ عالمی ادارہ تشکیل دیا۔ سان فرانسسکو میں منعقدہ اس کے پہلے اجلاس میں انسانی حقوق کا جو چارٹر ترتیب دیا گیا اس میں بھی ریاستوں کے مابین تعلقات کے لئے پرامن بقائے باہمی کا آفاقی اصول ہی بنیاد بنایا گیا اور طے کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اپنے باہمی تنازعات حل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور جنگ و جدل سے گریز کریں گے ، دوطرفہ مذاکرات کا راستہ اختیار کریں گے اور ایک دوسرے کی آزادی ، خودمختاری اور سالمیت کو مقدم رکھیں گے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے رکن ممالک علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
اس تناظر میں اگر اقوام متحدہ کے اب تک کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اس کی پوزیشن لیگ آف دی نیشنز سے قطعاً مختلف نظر نہیں آتی کیونکہ اس کی رکن چند بڑی طاقتوں نے اپنے مقاصد کے لئے اسے بھی موم کی ناک بنا رکھا ہے جو اس کے فیصلوں اور قراردادوں کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتیں ، سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کو ویٹو پاور حاصل ہے چنانچہ وہ اپنے مفادات کے خلاف سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر کے اس پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔
جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ کی افادیت سمیت اقوام عالم کے باہمی روابط اور ان روابط میں بہتری سے متعلق تمام امور کا یقینا جائزہ لیا جاتا ہے اور علاقائی و عالمی امن کے تحفظ کے لئے اقدامات تجویز بھی کئے جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہر سالانہ اجلاس کا نتیجہ محض نشتند، گفتند، برخاستند والا ہی برآمد ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رکن چند بڑی طاقتوں کی اس سے زیادہ خودغرضی اور اپنی دھاک بٹھانے کی ضد اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے کورونا وائرس کی ٹوٹنے والی قدرتی آفت میں بھی انسانی ہمدردی و بقاء کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھا اور جنگ و جدل کے ذریعے اپنے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے اقدامات میں مگن رہی ہیں۔ اگر اس حوالے سے مختلف ممالک کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو انسانی ہمدردی کے ناطے کورونا وائرس کے سدباب کے تمام ممکنہ اقدامات میں چین پیش پیش رہا ہے جس نے سائنو فام نامی ویکسین بھی سب سے پہلے ایجاد کر کے اقوام عالم تک پہنچائی جبکہ اس کے برعکس امریکہ نے چین کو کورونا وائرس کے پھیلائو کا موردِالزام ٹھہرایا اور اس تناظر میں اسے سنگین نتائج بشمول جنگ و جدل کی دھمکیاں دینے کا آغاز کیا جبکہ وہ چینی ساختہ ویکسین سے بھی مختلف ساختہ کہانیوں اور الزامات کے ذریعے اقوام عالم کو بدگمان کرنے کی کوششوں میں مگن رہا۔
آج افغانستان کی تبدیل شدہ صورت حال کی بنیاد پر بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مختلف خطرات کی زد میں گھری نظر آتی ہے اور یہ خطرات افغانستان میں امن کی مکمل بحالی اور اس کی حکومت کے استحکام کے ذریعہ ہی ٹالے جا سکتے ہیں۔
اس معاملہ میں بھی چین نے سب سے پہلے پیش رفت کی اور طالبان کے افغانستان پر غلبے سے بھی پہلے ان کے ساتھ سفارتی سطح پر روابط قائم کر لئے جبکہ امریکہ نے اس تناظر میں بھی چین کے ساتھ کشیدگی پیدا کر رکھی ہے جس کے خیال میں چین اس خطہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر امریکی بالادستی کے عزائم زائل کر سکتا ہے۔ کیا امریکی خودغرضی کی اس سے بڑی مثال کوئی اور ہو سکتی ہے کہ اس نے اقوام عالم میں پھیلتے کورونا وائرس کے دوران بھی پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کو تھپکی دینے کا سلسلہ ترک نہیں کیا چنانچہ بھارت نے پاکستان ہی نہیں ، بھارتی مسلمانوں سمیت پوری مسلم امہ کو کورونا کے پھیلائو کے حوالے سے نفرت کا نشانہ بنانے کی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس حوالے سے امریکہ ، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ جو درحقیقت مسلم امہ کے خلاف ہنود و یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ہے ، اپنی سازشوں اور مکارانہ چالوںسے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات کی زد میں لاتا نظر آتا ہے۔ بھارت نے گزشتہ 73 سال سے کشمیر پر بزور اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے پرامن اور قابلِ قبول حل کے لئے یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی موجودگی میں بھارت نے دو سال قبل پانچ اگست کو اپنے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کو مکمل ہڑپ کرنے کا جنونی اقدام اٹھایا۔ اس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوئے مگر بھارتی جنونیت اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند نہیں باندھا جا سکا جس نے کورونا وائرس کو بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا۔
آج بھارت افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد اپنی سازشوں میں مکمل ناکام اور عملاً تنہا ہو چکا ہے اور ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہا ہے مگر امریکہ اور اس کے حلیف اس کے نیٹو اتحادیوں کے دل میں اب بھی اس کے لئے نرم گوشہ ہے جس کے ہاتھوں ہمارے خطے کا امن و سلامتی ہمیشہ خطرات کی زد میں رہتا ہے۔ جبکہ امریکہ نے خطے میں چین کی بالادستی کے توڑ کے لئے برطانیہ اور آسٹریلیا کو ساتھ ملا کر ’’اوکس‘‘ نامی ایک نیا فوجی اتحاد بھی قائم کر لیا ہے۔ یہ تمام معاملات جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں زیر بحث آنے اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے لئے ٹھوس اقدامات کے متقاضی ہیں۔ اجلاس میں امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ بذریعہ ویڈیو لنک گزشتہ روز خطاب کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جنرل اسمبلی کے اس 76 ویں اجلاس میں جمعۃ المبارک 24 ستمبر کو خطاب کرنا ہے۔ یو این سیکرٹری جنرل نے امریکہ اور چین کے مابین سردجنگ کے خاتمہ پر زور دیا ہے جبکہ اس وقت ضرورت امریکہ ، بھارت ، اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے بھی علاقائی اور عالمی امن کو بچانے کی ہے۔ جنرل اسمبلی کو اس بارے میں ٹھوس بنیادوں پر کوئی قابلِ عمل فیصلہ ضرور کرنا چاہئے تاکہ اس خطہ میں بھارتی پیدا کردہ کشیدگی سے بھی علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونے والے خطرات ٹالے جا سکیں۔