بدھ ‘ 13؍ صفر‘ 1443ھ‘ 22 ؍ ستمبر2021ء
بلاول کی 33 ویں سالگرہ پر مختلف شہروں میں تقریبات
بلاول کو زندگی کی 33 بہاریں دیکھنا مبارک ہوں۔ اب خیر سے وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جسے ہم جوانی کہتے ہیں۔جہاں تک پہنچتے ہی ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی شادی کر دیتے ہیں۔ لڑکیوں کے ہاتھ پیلے اور لڑکوں کے سر پر سہرا سجا دیا جاتا ہے۔ اب آصف زرداری اس طرف بھی توجہ دیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بچوں کا گھر آباد دیکھیں۔ اس لیے زرداری بھی اب جلد از جلد بلاول کے لیے لڑکی تلاش کریں اس کے بعد آصفہ کی باری آئے گی۔ بہرحال یہ تو گھریلو معاملات ہیں ، معلوم نہیں بلاول شادی کے لیے سنجیدہ نہیں یا زرداری کو اچھی لڑکی نہیں مل رہی۔ پیپلز پارٹی والوں نے البتہ اپنے رہنما کی سالگرہ پر مختلف شہروں میں خوب ہلہ گلہ کیا۔ سالگرہ کے کیک کاٹے۔ اس موقع پر اس روایتی چھینا جھپٹی کا عوامی رنگ غالب رہا۔ سیاسی میدان میں بلاول خوب گرج برس رہے ہیں۔ ان کی سیاست میں سنجیدگی اور ٹھہرائو آ رہا ہے۔ بس ذرا بولتے ہوئے ان کا لہجہ اردو سے دور اور انگریزی سے قریب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کا سنجیدہ بیان بھی مخولیا محسوس ہوتا ہے۔ تذکیر و تانیث پر ہم بات نہیں کرتے۔ یہ گلابی اردو سننے میں اچھی لگتی ہے۔ بات کہاں سے کہاں جا نکلی۔ بلاول کو ان کی 33 ویں سالگرہ مبارک ہو اور دعا ہے جلد ہی وہ شادی کی مبارکبادیں بھی وصول کرتے نظر آئیں۔
٭٭٭٭٭
بابری مسجد کی شہادت کے اہم کردار مہنت نریندر گیری نے خودکشی کر لی
مذہب کے نام پر مسلمانوں کی مذہبی املاک پر زور زبردستی قبضہ کرنے انہیں مسمار کرنے والا ایک اور کردار گزشتہ روز اپنے انجام کو پہنچ گیا۔بابری مسجد کے بعد ’’کاشی اور متھرا ابھی باقی ہیں‘‘ جیسے انتہا پسند مسلم دشمن نعرے لگا کر ان دو مقدس ہندو شہروں سے مساجد ، قبرستان اور مزارات کو گرانے کی مکروہ مہم چلانے میں پیش پیش بڑے ہندو مہنت نریندر گیری نے گزشتہ روز خودکشی کر لی یا کسی نے اس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ یوں متھرا درکاشی میں موجود مسلم مذہبی املاک تو موجود رہیں مگر ان کو مٹانے والا خود مٹ گیا نجانے یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارت صرف ہندوئوں کا ہی نہیں بلکہ وہاں موجود تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ہے۔ راحت اندوری نے کہاتھا!
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے حوصلہ بلند ہوئے وہ سمجھنے لگے کہ اب سارے ہندوستان سے وہ مسلمانوں کے آثار مٹا دیں گے مگر سب دیکھ رہے ہیں کہ بابری مسجد کی ناحق شہادت میں حصہ لینے والے کچھ تو ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود مسلمان ہو گئے اور اب وہ مساجد بنا کر کفارہ ادا کر رہے ہیںاور کئی بدترین اذیت کے ساتھ آنجہانی ہو گئے، انہی میں سے ایک یہ مہنت نریندر گیری بھی ہے جسے خود ہندوئوں نے اس کی اربوں روپے کی ہتھیائی ہوئی قیمتی پراپرٹی ہڑپ کرنے کے لیے مار دیا اور اسے خودکشی کا رنگ دیا ہے۔ یہ بات خود اس کے چیلے نے بتائی ہے جو گرفتار ہے۔ یوں جس قیمتی زمین کی خاطر وہ مسلمانوں کی املاک لوٹتا اور قبضہ کرتا رہا وہی اس کے گلے کا پھندا بن گئی۔
٭٭٭٭
حکومت کا غیر ملکی تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار
اب کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ حساس نوعیت کی معلومات ہوتی ہیں۔ ان کے آشکار ہونے سے دوست ممالک ناراض ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر اسلامی عرب ممالک کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کو تحائف کی معلومات طشت ازبام کرنے پر انہیں سخت اعتراض ہے۔ کیونکہ وہاں تحفوں کا ذکر کرنا بدتہذیبی شمار ہوتا ہے۔ اس لیے اب تحائف کی مالیت اور تعداد بتائی نہیں جا سکتی۔ لو جی کر لو بات! وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔ اب کوئی لاکھ شور مچائے اس معاملے سے پردہ اٹھنا ہی نہیں۔ غیر ملکی تحائف کوئی معمولی تو ہوتے نہیں بھاری مالیت کے ہوتے ہیں۔ کون چاہے گا کہ وہ قومی خزانے میں جمع ہوں۔ اکثر حکمران تو یہ بھی کہتے رہے ہیں یہ ہمارے ذاتی تحفے ہوتے ہیں۔ ہم کیوں واپس دیں۔ اب یہ تحفے خواہ زیور کی شکل میں ہوں، گھڑی کے یا کار اور تلوار کے ہمارے حکمرانوں کو بہت پسند ہیں۔ موجودہ حکمران بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ البتہ اب حکومتی ترجمان کہہ رہا ہے کہ پہلے 25 فیصد تحفے قومی خزانے میں جمع کرائے جاتے تھے موجودہ حکومت 50 فیصد جمع کراتی ہے۔ یہ صرف زبانی کلامی حساب کتاب ہے۔ مالیت اور تعداد یہاں بھی پوشیدہ ہیں، کس سے جواب مانگیں۔ شاید یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ ہر حکمران ان تحائف پر یونہی حق جتاتا رہے گا اور بے کار کی بحث میں عوام کا وقت برباد ہوتا رہے گا۔ اس لئے لوگ ان باتوں پر توجہ نہ دیں تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں اسی میں سب کا بھلا ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں بھی پہنچ چکا ہے۔ دیکھتے ہیں وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔
٭٭٭٭
اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی پر مقامی ٹائون کے سی ای او کو 3 سال قید ، ڈیڑھ ارب جرمانہ
بے شک یہ سزا جائز ہی ہے مگر جرمانے کی رقم پڑھ کر تو غش آنے لگتا ہے۔ صرف یہی نہیں اسے ایک ارب روپے مالیت کے درخت بھی لگا نے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اس کام کے لیے تو عمر خضر چاہیے۔ پہلے ڈیڑھ ارب کا جرمانہ کیا کم تھا کہ اب یہ ایک ارب کے درخت بھی کاٹ کھانے کو دوڑ پڑیں گے۔ اتنا جرمانہ تو بڑی بڑی فیکٹریوں ، ملوں ، کارخانوں کے مالکان کو نہیں کیا جاتا جو دن رات ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ ادارے دن رات فضائی ، آبی اور ارضی آلودگی پھیلانے میں پیش نظر آتے ہیں۔ اب ایسا ہی بھاری بھرکم جرمانہ ان کو بھی ہونا چاہئے جو ماحولیاتی قوانین پر عمل نہیں کرتے۔ اس وقت دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے تباہی پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔ اس لیے درختوں اور جنگلات کے تحفظ اور بقا کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مگر ہمارے ہاں جہاں پہلے سے جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے جنگلات سکڑ رہے ہیں کیونکہ ہم نہایت بے دردی سے درختوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ درخت لگانے اور جنگلات کا رقبہ بڑھانے میں یکسو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ٹمبر مافیا کو پہلے جیسے نرم حالات کی بجائے گرم حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوگ البتہ خوش ہیں کہ کسی نے تو اس طرف توجہ دی۔ کیا ہی اچھا ہو حکومت ہر سڑک اور گلی کے کناروں پر درخت لگائے۔ دیہات ہوں یا شہر خالی جگہوں پر شجرکاری کرے۔ لوگ بھی گھروں اور گھروں کے باہر درخت ضرور لگائیں۔ اس سے موسموں کی شدت میں بھی کمی آئے گی اور ملکی آب و ہوا بھی صحت انسانی کے لیے مفید بن جائے گی۔