پولیس ریفارمز: چیف جسٹس پاکستان سے التجا
پولیس ریاست کا بنیادی ادارہ ہے جو عوام کی جان و مال عزت آبرو کا ضامن ہے۔ جرائم کو کنٹرول کرنا اور امن و امان قائم رکھنا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے کریمنل جسٹس سسٹم کا انحصار پولیس کی تفتیش پر ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد 1861ء میں پولیس ایکٹ تشکیل دیا جس کا بنیادی مقصد عوام کو محکوم رکھنا اور حکومت برطانیہ کے لئے ریونیو جمع کرنا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سے کم و بیش یہی پولیس ایکٹ تا حال چلایا جا رہا ہے جو انتہائی اذیت ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم ثاقب نثار نے 2018ء میں عوام ریاست اور عدلیہ کے بہترین مفاد میں پولیس ایکٹ میں جوہری نوعیت کی ترامیم کرنے اور سفارشات مرتب کرنے کے لیے پولیس ریفارمز کمیٹی تشکیل دی جس میں آٹھ ریٹائرڈ آئی جی پولیس اور تمام سرونگ پولیس شامل تھے۔ اس کمیٹی کی سربراہی کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ کو فائز کیا گیا۔ ریٹائرڈ آئی جی پولیس افسروں میں محترم افضل شگری، محترم سید مسعود شاہ محترم اسد جہانگیر، محترم ڈاکٹر شعیب سڈل، محترم شوکت جاوید، محترم طارق کھوسہ، محترم افتخار احمد اورمحترم فیاض ترو شامل تھے۔ چیف جسٹس محترم ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس پاکستان محترم آصف سعید کھوسہ اور کمیٹی کے اراکین نے اس کام کو مثالی عزم اور قومی جذبے کے ساتھ جاری رکھا۔ پولیس ریفارمز کمیٹی لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی نگرانی میں کام کرتی رہی جو ایک وفاقی ادارہ ہے اور جس کا سربراہ چیف جسٹس پاکستان ہوتا ہے۔ پولیس ریفارمز کمیٹی نے عوامی شکایات کی دادرسی تفتیش کے نظام کو معیاری بنانے عوام دوست ماڈل پولیس کی تشکیل کریمنل جسٹس سسٹم کو آزاد اور شفاف بنانے پولیس کے احتساب کو موثر بنانے سیاسی مداخلت کو ختم کرنے میرٹ پر پولیس کو بھرتی کرنے کے سلسلے میں دو والیم پر مشتمل سفارشات مرتب کیں۔ محترم آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نام خط لکھ کر ہدایت کی کہ وہ پولیس ریفارمز کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ محترم آصف سعید کھوسہ کا ایک کریڈٹ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ماڈل کورٹس قائم کر کے سات سو چھبیس دن کے اندر دو لاکھ 13 ہزار ایک سو گیارہ مقدمات کا فیصلہ کر کے عدالتی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ انتہائی دکھ درد اور اذیت کا مقام ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پولیس اصلاحات کے سلسلے میں آج تک کوئی قدم نہیں اٹھایا جبکہ پاکستان میں کرائم ریٹ تشویش ناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ مینار پاکستان کا المناک اور شرمناک واقعہ گورننس کے زوال کا ثبوت ہے۔ پہلے عوام کی جان و مال محفوظ نہ تھے اور اب صورتحال حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے معصوم بچے اور بچیوں کی عزت و آبرو محفوظ نہیں رہی۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں عوام کا یقین اور اعتماد ہی اٹھ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان میں تبدیلی لانے پولیس کے نظام کو عوام دوست بنانے اور نیا پاکستان تشکیل دینے کے وعدے پر اقتدار میں آئے۔ عوام کو ان سے ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ وہ پولیس اور ادارہ جاتی اصلاحات کے سلسلے میں بے حسی کا مظاہرہ کریں گے۔ سپریم کورٹ کی پولیس سفارشات کو نافذ نہ کرنے کی ایک ہی وجہ ہے کہ اس کے نفاذ سے سیاسی اشرافیہ کا پولیس پر کنٹرول ختم ہو جائے گا-پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس محترم گلزار احمد شفاف ریکارڈ کے حامل نیک نام محب الوطن شخصیت ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ عوام کے بنیادی حقوق کو بڑی اہمیت دی ہے۔ ان سے عاجزانہ التجا ہے کہ وہ پولیس ریفارمز جیسے سے اہم ترین مسئلے کا نوٹس لیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو ہدایت کریں کہ وہ عوامی مفاد کے اس اہم ترین مسئلے کو نظرانداز نہ کریں اور سپریم کورٹ نے 2019ء میں حکومتوں کو پولیس ریفارمز کا پیکج ارسال کر رکھا ہے اس پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ اگر پاکستان کے چیف جسٹس محترم گلزار احمد لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں نسل در نسل ان کو عزت اور وقار کے ساتھ یاد رکھا جائیگا اور جب وہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اللہ ان کو کہے گا ویل ڈن گلزار احمد تم نے میری مخلوق کی داد رسی کی۔ ادارہ جاتی اصلاحات کی ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹرعشرت حسین نے راقم کو فون پر بتایا کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکے ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا پیکج نہ صرف تیار ہوچکا ہے بلکہ کابینہ نے اس کی منظوری بھی دے رکھی ہے مگر اس کے باوجود ان اصلاحات کو ریاستی اداروں میں نافذ نہیں کیا جا رہا۔ گزشتہ تین سال کے دوران ٹاسک فورس کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ عوام نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان اس حد تک بے حسی کا مظاہرہ کریں گے اور غیر معمولی تاخیر کے سلسلے میں عوام کو اعتماد میں بھی نہیں لیں گے۔ افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے ججوں وکیلوں بیوروکریٹس اور سیاست دانوں سب نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کے دلوں میں خوف خدا ہی نہیں رہا۔پاکستان کے عوام کی بے حسی اور خاموشی پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے لئے سیکورٹی رسک بن چکی ہے۔پاکستان کو اندرونی طور پر سنگین نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ان حالات میں عدلیہ ہی واحد ادارہ ہے جو دلیری اور جرات کا مظاہرہ کرکے پاکستان کی گورننس کو شفاف، فعال اور معیاری بنا سکتا ہے اور پولیس فورس کو مثالی بنا کر ریاست کو داخلی طور پر محفوظ اور مستحکم بنا سکتا ہے۔