کشت ِویراں کی نم مٹی
پچھلے کالم میں عرض کیا تھاکہ شاہ اللہ دتہ سے آگے جیسے ہی مارگلہ پہاڑی کے دامن میں راستہ لیتے ہیں تو جہاں سڑک کی خستہ حالی آپکو ہچکولوں کے سپرد کرتی ہے وہیں اس پہاڑی سلسلے کی شادابی اور رنگینی آپ کی روح کو انوکھا سرور بخشتی ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے عین درمیان کینتھلا نامی گاؤں آباد ہے جسکے اردگرد اب دامن کوہ کی طرح اعلی معیار کے کئی ریستوران بھی بن گئے ہیں۔ گْو کہ اس علاقے کا شمار ہری پور میں ہوتا ہے لیکن اسکا انتظام گلیات ڈویلپمنٹ کے سپرد ہے۔ اس پوائنٹ سے اسلام آبادکے منظر دیکھنے کے قابل ہیں، خاص کر شام کو جب اسلام آباد میں شاہراہوں پہ نصب برقی قمقمے روشن ہوتے ہیں تو لگتا ہے روشن ستاروں سے بھرا آسمان زمین پہ بچھا دیا گیا ہے۔
کینتھلا سے شیر شاہ سوری کے زمانے کی ہی بنی سڑک گرم تھون گاؤں سے ہوتی خانپور جھیل تک جاتی ہے جو دونوں طرف سے pine کے جنگلات میں گھری ہوئی اسقدر تازگی اور خوشبوؤں کا احساس دلاتی ہے کہ پھر وہی سورہ رحمن کا ایک ایک لفظ اپنی تمام تر رعنائیوں سے گونجتا ملتا ہے۔
خانپور جھیل سے جب ٹیکسلا کا راستہ لیں تو راستہ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں ملتے ہیں۔ مزے کی بات ان قدرتی حسین نظاروں کے ساتھ جس بات نے ہمیں سب سے زیادہ سرشار کیا وہ ننھی دنیا کے وہ فرشتے تھے جو اپنے گلوں میں کتابوں کے بیگ لٹکائے تین تین چار چار میل کی مسافت طے کرتے اپنے سکول سے اپنے گھروں کی طرف قلابے بھر تے ایسے جا رہے تھے جیسے ہرنی کے بچے چھلانگیں لگا رہے ہوں۔ انکو دیکھا تو بے ساختہ اقبال کا شعر یاد آ گیا
نہیں ہے نا اْمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
کاش صرف حکومتوں سے توقع رکھنے کی بجائے ہم میں سے ہر کوئی اس کشت ویراں جسکی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے اسے آباد کرنے میں اپنی اپنی سطح پر تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالنا شروع کر دے تو شاید تعلیم یافتہ قوموں میں ہم بھی سر اْٹھا کر چلنا شروع کر دیں۔خانپور جھیل سے ٹیکسلا کی طرف پیش قدمی جاری تھی کہ رات کی طرح ایک دفعہ پھر ساون بھادوں کی جھڑی نے آ لیا۔ بارش تھی کہ دس فٹ فاصلے پر بھی کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن کمانڈو پھر کمانڈو ہوتا ہے میجر ثناء کی عقابی نظروں سے ترناوہ گاؤں کے سڑک کنارے وہ قدیم چپل کباب والا کیسے بچ سکتا تھا جو بقول میجر اس علاقے کی پہچان ہے۔ ساون بھادوں کی اس جھڑی میں چھپر کی چھت کے نیچے بیٹھ کر کبابوں کے ساتھ انصاف کرتے اور مزیدار پشاوری قہوہ پینے کے بعد میجر صاحب نے قدیمی شہر سرکپ کا راستہ لیا جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ یونانی فاتح ڈیمیٹریس نے 180 قبل مسیح جب اس علاقے کو فتح کیا تو گرڈپلان پہ بسائے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ اس قدیم شہر کے خد و خیال کچھ اسطرح ہیں کہ شمال کی طرف سے شہر میں داخل ہوں تو بڑی شاہراہ جنوب کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس چوڑی شاہراہ سے پندرہ گلیاں نکلتی ہیں،جن کے دونوں طرف میں مکانات اور مندر بنے ہیں۔ دو سروں والے باز کے مندر کی بنیاد اچھی حالت میں موجود ہے۔وقت کے تعین کے لئے شمسی گھڑی بھی بنائی گئی ہے جس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔ پتھر کی بڑی سلوں اورچھوٹے ٹکڑوں سے بنی دیواریں آج بھی اپنی خوبصورتی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پانی کے حصول کے لئے کنوئیں بھی اچھی حالت میں موجود ہیں۔ بارشی پانی کے لئے نالیاں بھی بنی ہیں۔ گویا دور قدیم میں ایک جدید شہر کو جو کچھ درکار ہوتا تھا وہ یہاں موجود ہے۔ شہر کی حفاظت کے لئے اس کے گرد پانچ سے سات میٹر چوڑی بنی فصیل بھی موجود ہے۔
مشہور ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل کی نگرانی میں جب یہاں کھدائی کی گئی تو اوپر نیچے تین مختلف ادور کے شہروں کے آثار برآمد ہوئے۔ اوپر نیچے بسائے مختلف ادوار کے شہروں کی ایک جھلک داخلی راستے کی مغربی سمت میں دیکھی جا سکتی ہے۔سر کپ کی سیر کے بعد میجر صاحب نے ٹیکسلا کے قریب جی ٹی روڈ پہ مارگلہ پاس کی طرف راستہ لیا۔ میجر جسطرح اس پورے خطے کی ایک ایک انچ ہسٹری بیان کر رہا تھا مجھے لگا کہ وہ کمانڈو کم اور Historian زیادہ ہے۔ تاریخ بیان کرتے میجر بتانے لگا کہ انگریزی میں اسے Cut throat pass کہتے ہیں۔
تاریخی حوالوں کے تناظر میں بقول میجر تین صدی قبل مسیح میں موریا سلطنت کے بادشاہ چندر گپت موریا نے اپنے دارالحکومت سے شمال مغربی سرحدی علاقوں کے لئے یہ سڑک بنوائی، بعد میں آنے والے بادشاہ، روٹ میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ اس سڑک کی مرمت کرواتے رہے۔ شیر شاہ سوری نے اسے مزید بہتر کیا اور اس کے کنارے سایہ دار درخت لگوائے، مسافروں کی سہولت کے لئے سرائے بنوائیں جہاں پانی کے کنویں کھدوائے۔ مارگلہ کے درے کے مغربی سمت جان نکلسن میموریل ہے۔ جو مشہور انگریز بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن کی یاد میں تعمیر کرایا گیا جہاں سے ہم نے واپس اسلام آباد کا راستہ لیا اور یوںیہ یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔