خطیب الاُمت مجاہدِ ختم نبوت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا احرار رضاکارو …اِس تحریک کی روح کو زندہ رکھنا۔ عقیدۂ ختم نبوت پر آنچ نہ آئے۔ اِس کی حفاظت ہم سب مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے۔ میری دعائیں مجلس احرار اسلام کے ساتھ ہیں۔ میں بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن میرا عزم جواں ہے ، میری رگوں میں اب بھی جوانی کا لہو دوڑ رہا ہے۔
احرار کے سرخ پوش جوانو!
تمہیں دیکھ کر میں بہت طاقت ور ہو گیا ہوں۔ میں مطمئن ہوں کہ جب تک احرار زندہ ہیں ، قادیان کی مرزائی نبوت نہیں چلنے دیں گے۔ جب بھی کوئی نبی سر اٹھائے گا صدیقِ اکبرؓ کی سنت جاری کی جائے گی۔
مسلمانو!
متحد ہو کر احرار کی اس دینی جنگ میں شریک ہو جائو اور اپنی اجتماعی قوت سے انگریزی نبوت کا ٹاٹ لپیٹ دو۔‘‘
مقصود کی منزل نہ ملی ہے نہ ملے گی!
سینوں میں اگر جذبۂ احرار نہیں ہے
تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اُس کے نقوش میں توازن نہ تھا، قد و قامت میں تناسب نہ تھا ، اخلاق کا جنازہ تھا ، کریکٹر کی موت تھی ، سچ کبھی نہ بولتا تھا ، معاملات کا درست نہ تھا ، بات کا پکا نہ تھا ، بزدل اور ٹو ڈی تھا ، تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔
لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اُس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی تو بھی اس کے جھوٹ کے ساتھ کوئی کھڑا نہ ہوسکتا کیونکہ حضرت محمد ؐ خاتم النبین ہیں ۔
ڈاکٹر محمد عمر فاروق اور مکتبہ مجلسِ احرار نے تحریک ختمِ نبوت کی تاریخ مرتب کرنے کے حوالے سے بہترین کام کیا ہے اور تحریک ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی نمایاں شخصیات میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری ،مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس اللہ سرہ،شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، حضرت مولانا احمد علی لاہور، مولانا احمد سعیددہلوی ، مولانا محمد منظور نعمانی ،حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، علامہ محمد اقبال ، مولانا ظفر علی خان،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا مظہر علی اظہر ،چودھری افضل حق ، چودھری عبدالعزیز بیگووال، شیخ حسام الدین ،ماسٹر تاجالدین انصاری ،قاضی احسان احمد شجاع آبادی، نوابزادہ محمود علی خان، (کیلاش پور ، ضلع سہارن پور) سید محمد احمد کاظمی ، (سابق ایم ایل اے)،مولاناعبدالکریم مباہلہ ،چودھری عبدالرحمن رحمہ اللہ ایم ایل اے (راہوں ،جالندھر)،مولانا عنایت اللہ چشتی ، مولانا محمد حیات ، مولانا بہائو الحق قاسمی ، مولانا عبدالغفار غزنوی ، حاجی محمد حسین شہید (بٹالہ) ،حاجی عبدالغنی شہید (رئیس بٹالہ) ،خالد لطیف گابا (کے ایل گابا ،بیرسٹر) ،مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا خلیل الرحمن لدھیانوی، ،مولانا محمد علی جالندھری ، ،خواجہ عبدالرحیم عاجز امرتسری ،مولانا لال حسین اختر، جانباز مرزا ،مولانا عبدالرحمن میانوی ،صاحبزادہ سید فیض الحسن، حافظ بشیر احمد مصری ،صاحبزادہ مقبول الرسول ،حافظ محمد خان ،پیر مظہر قیوم ،خواجہ عبدالحمید بٹ ،مفتی عبدالقیوم پوپلزئی، بابا عالم سیاہ پوش ،جسٹس محمد اکبر ہاشمی (بہاول پور) ،جسٹس جی ڈی کھوسلہ (گورداس پور) ،چیف جسٹس ڈگلس ینگ (ہائی کورٹ لاہور) شامل ہیں۔
تحریک تحفظ ختم نبوت
1931 ء ………1946ء
تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز عہد نبوی سے شروع ہوا۔ جب نبوت کے جھوٹے دعویدار سود عنسی کی سرکوبی کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فیروز ویلمی ؓ کو روانہ فرمایا اور اُن کی کامیاب معرکہ آرائی پر لسانِ نبوت سے ارشاد ہوا کہ ’’فاز فیروز‘‘ فیروز کامیاب ہو گیا۔ خلیفۂ الرسول بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں جنگ لڑی گئی۔ جس میں پہلے حضرت عکرمہ پھر حضرت شرجیل بن حسنہ اور آخر میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسلامی لشکر کی قیادت فرمائی اور مسیلمہ کذاب کو اُس کے انجام تک پہنچایا۔ اس معرکے میں بارہ سو صحابہ کرامؓاور تابعین نے جام شہادت نوش کر کے اپنے پاک خون سے تحفظ ختم نبوت کی خشتِ اول رکھی اور آنے والے عہد میں مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کرنے کی زریں مثال قائم کی۔ عہد بہ عہد یہ مقدس جہاد جاری رہا۔ برصغیر میں بھی علماء کرام ، مشائخ عظام اور قومی رہنمائوں اور عامتہ المسلمین نے تحریک تحفظ ختم نبوت کی مشعل کو فروزاں رکھا۔ مسلمانوں نے جان و مال اور عزت و آبرو کی پروا کیے بغیر عقیدۂ ختم نبوت کی دل و جان سے حفاظت کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اُنیسویں صدی میں برطانوی استعماریت جب ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک پر اپنا اقتدار مستحکم کر چکی تو پھر ہندوستان بھی اس کی للچائی ہوئی نظروں میں آ گیا۔ ہندوستان میں برطانوی شاطروں کی دلچسپی کی وجہ یہاں کی مخصوص سیاسی ، معاشی اور جغرافیائی اہمیت تھی۔ جب 1857ء میں فرنگی کی چال بازیوں اور اَپنوں کی غداریوں سے تحریک آزادی ناکامی سے دوچار ہوئی تو ہندوستان بھی برطانوی استعماریت کی گرفت میں آ گیا۔
مرزا قادیانی اور اُس کا خاندان
انگریز کے وفادار اور مسلمانوں کے غدار خاندانوں میں سے ایک قادیان کا مرزا غلام احمد قادیانی کا خاندان بھی تھا۔ جب سکھ عہد میں مرزا قادیانی کے پردادا گل محمد کو قادیان سے نکال دیا گیا تو وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے ایک مخالف سردار فتح سنگھ کے ہاں پناہ گزیں ہوئے، فتح سنگھ مر گیا تو رنجیت سنگھ ان کے علاقے پر قابض ہو گیا۔ اب مرزا قادیانی کے باپ مرزا غلام مرتضیٰ اور چچا مرزا غلام محی الدین رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے رنجیت سنگھ کی قیادت میں کشمیری مسلمانوں اور بعدازاں حضرت سید احمد شہید ربلوی کی تحریک مجاہدین جانباز مجاہدین کے قتل عام میں حصہ لیا۔ 1834ء میں رنجیت سنگھ نے مرزا غلام مرتضیٰ اور مرزا غلام محی الدین کی اس وفاداری کے عوض قادیان میں ان کے پانچ گائوں انہیں دوبارہ عطا کر دئیے۔
جب رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد پنجاب میں انگریزوں کا تسلط مضبوط ہونے لگا تو مرزا غلام مرتضیٰ نے انگریز کے دربار میں اپنی جگہ بنا لی اور انگریز کی کمان میں ہندوستان کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے اس کا دست و بازو بن گیا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے والد کی انگریز کے لیے دی گئیں خدمات کا تعارف یوں کراتا ہے:
’’یہ عاجز گورنمنٹ کے اس قدیم خیر خواہ خاندان میں سے ہے ، جس کی خیر خواہی کا گورنمنٹ کے عالی مرتبہ حکام نے اعتراف کیا ہے اور اپنی چٹھیوں سے گواہی دی ہے کہ یہ خاندان ابتدائی انگریزی عملداری سے آج تک خیر خواہی گورنمنٹ عالیہ میں برابر سرگرم رہا ہے۔ میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ اس محسن گورنمنٹ کے ایسے مشہور خیرخواہ اور دلی جاں نثار تھے کہ وہ تمام حکام جو اُن کے وقت میں اس ضلع میں آئے ، سب کے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے میرے والد موصوف کو ضرورت کے وقتوں میں گورنمنٹ کی خدمت کرنے میں کیسا پایا، اور اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے 1857ء کے مفسدہ کے وقت اپنی تھوڑی حیثیت کے ساتھ پچاس گھوڑے مع پچاس نوجوانوں کے ، اس محسن گورنمنٹ کی امداد کیلئے دئیے اور ہر وقت امداد اور خدمت کیلئے کمربستہ رہے ، یہاں تک کہ اس دنیا سے گزر گئے۔ والد مرحوم گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں ایک معزز اور ہر دلعزیز رئیس تھے ، جن کو دربارِ گورنری میں کرسی ملتی تھی۔‘‘
مرزا غلام مرتضیٰ نے اپنے بیٹے مرزا غلام احمد کی بھی اپنے ہی ڈھب پر تربیت کی ، کیونکہ وہ انگریز کی خدمت کر کے اپنی جائیداد کی واپسی چاہتے تھے ، چنانچہ والد نے مرزا غلام احمد کو سیالکوٹ کی کچہری میں کلرک کی ملازمت دلا دی ، مرزا غلام احمد نے وہاں قانون کا امتحان دیا ، مگر ناکام رہا۔ مرزا قادیانی کی ملازمت 1864ء سے 1868ء تک جاری رہی ، بعد میں وہ ملازمت سے استعفی دے کر قادیان واپسی آ گیا اور خاندانی اراضی کے مقدمات کی پیروی میں مصروف ہو گیا ، لیکن ایک عرصہ تک مقدمات میں الجھنے کے بعد بھی اُسے سراسر ناکامی ہوئی اور جائیداد بھی غارت ہوتی دکھائی دینے لگی۔ یہی دور تھا ، جب مرزا قادیانی نے عجیب و غریب باتیں شروع کر دیں ۔
سیالکوٹ میں قیام کے دوران مرزا قادیانی کے عیسائی پادریوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے اور ان کی مذہبی و سیاسی معاملات سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ اس دور میں برطانوی حکومت کی سرپرستی میں عیسائی پادریوں نے عیسائیت کی کھلم کھلا تبلیغ کرنے کے علاوہ اسلام کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ علماء کرام شائستہ انداز میں پادریوں کو جواب دینے میں مصروف تھے۔یہی وہ وقت تھا جب اس نے اپنے جھوٹ کی باقاعدہ تشہیر شروع کر دی
مرزا قادیانی کے ایسے دعوئوں کو خود ان کے خاندان کے لوگوں خصوصاً چچازاد بھائیوں مرزا نظام الدین اور امام الدین نے ماننے سے انکار کر دیا اورانہوں نے مرزا قادیانی کو مکار اور فریبی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مرزا قادیانی کا الہام و وحی محض ڈھونگ اور فریب ہے۔
1890ء کے آخر میں مرزا قادیانی نے جھوٹے دعوے شروع کر دئے دعوے کئے اوراپنی دو کتابیں لکھیں‘ جن میں اپنے دعویٰ مسیحیت کا جھوٹا اعلان کیا۔ پھر مرزا قادیانی نے مزید جسارت کرتے ہوئے 1901ء میں کھلم کھلا نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ اس کے بعد مرزا قادیانی نے اپنی ذات اور اپنی جماعت کو مسلمانوں سے الگ کر لیا اور وہ تمام اسلامی اصول و عقائد کے مقابلہ میں اپنے خود ساختہ عقائد پیش کرنے لگا۔
مرزا قادیانی نے اپنی موت کے بارے میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ:
’’ہم مکہ میں مریں گے‘ یا مدینہ میں۔‘‘
لیکن وہ وبائی ہیضہ کا شکار ہوا اور 26 مئی 1908ء کو اسہال کے مرض میں مبتلا رہ کر لاہور میں مر گیا اور قادیان میں دفن ہوا۔ مرزا قادیانی کی موت کے بعد حکیم نورالدین بھیروی اور مرزا بشیرالدین محمود بالترتیب اس کے جانشین بنے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024