لہو خورشید کا ٹپکے
مخلوق خدا کائنات کے پیدا کرنے والے کو ماننے اور نہ ماننے والوں پر مشتمل ہے مختلف مذاہب کو ماننے والے خالق کائنات کو مانتے ہیں ۔ کائنات کے اجزاء میں ہم آہنگی اور یک رنگی موجود ہے خود ایٹم چھتیس قسم کے ذرات سے مل کر بنا ہے ۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا کہ
لہو خورشید کا ٹپکے
اگر ذرے کا دل چیریں
ایٹم‘ نظام شمسی اور کائنات کی اکائیاں ایک ہی ماڈل پیش کرتی ہیں ۔ اتنے بڑے نظم و آہنگ کو اتفاق قرار دینا ناممکنات میں سے ہے۔ مصری پروفیسر ہارون یحییٰ نے ریاضیاتی طور پر ثابت کیا ہے وہ اتفاق نہیں ہو سکتا اسلئے خدا کے منکروں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ کائنات کو وجود میں لانے والی ہستی نہایت عظیم و علیم ہے تمام علوم اس کے محکوم ہیں اسکے حکم کُن کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ خالق کائنات کے منکر حادثات زمانہ کی کسی انسانی عمل کا نتیجہ ماننے کو تیار نہیں۔ خالق کائنات کو ماننے والے حوادثِ زمانہ کو انسانی عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور علت و معلوں ممکن ہے ضمنی طور پر ایسے پہلو بھی وقوع پذیر ہوتے ہوں جن کا اصل کے ساتھ کوئی تعلق جوڑنا ناممکن ہو۔ خشک سالی‘ قیامت خیز بارشیں‘ آتش فشاں پھٹنا‘ زلزلے‘ سیلاب دنیا میں آتے رہتے ہیں جنکی مادی توجیہہ کی جا سکتی ہے۔ طوفانِ نواح ایک عالمگیر طوفان تھا جو حضرت نوحؑ کی بددعا سے آیا۔ سنگونا اور کونین کی دریافت سے پہلے ملیریا ایک لاعلاج مرض تھا ۔ اینٹی بائیوٹک ادویہ کی ایجاد سے پہلے طاعون نے بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر اجاڑ دئیے ۔ دورِ حاضر میں کرونا نے دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پچھلے برس شروع ہونیوالی وبا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یورپین مغربی تہذیب نے ایڈز کا وائرس تخلیق کیا افریقیوں پر آزمایا وہاں سے یہ بے قابو ہوکر تمام دنیا میں پھیلا۔ کویڈ- 19 کے قصے ابھی پرانے نہیں ہوئے ایٹم بم کی ایجاد اور ہلاکت ‘ ہیروشیما اور ناگاساکی پر قیامت کا نزول یادگار واقعات ہیں۔ دنیا ایٹم بموں کے ڈھیر کے اوپر بیٹھی منتظر ہے کہ کب ایٹمی تنور کی دھکتی ہوئی آگ اسکا خاتمہ کر دے۔ انسان کی بداعمالی کے نتائج اللہ تعالیٰ ٹالے جا رہا ہے ۔ پاکستان میں اوسط عمر چند دہائیاں قبل 45 برس سے زیادہ نہ تھی ۔ سرجری‘ کیموتھرپی ‘ اینٹی بائیوٹک جان بچانے والی ادویہ کی بدولت 65 ‘ 70 سال ہو گئی ہے ۔ انسان جب غیر تہذیب یافتہ تھا ۔ انسان کی عمر ہزار برس تک تھی۔ حضرت نوحؑ کی عمر پچاس کم ہزار برس تھی اسکا سبب کیا تھا؟انسان کی مضبوط قوتِ مدافعت قدرتی غدائیں‘ شب و رز کی محنت نے جسمانی مدافعت کو اتنامضبوط کر دیا کہ بیماریاں ایسے جواں ہمت‘ فاقہ کش‘ محنتی انسانوں سے دور ہیں۔ لمبی عمر ان کا مقدر رہی۔ حضرت اقبالؒ نے قدیم انسانوں کی اسی خصوصیت کو بیان کیا ہے۔
فطرت کے اصولوں کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہِ صحرائی یا مرد کوہستانی
قدرتی خالص غذا‘ مسلسل جسمانی مشقت‘ ذہنی سکون اور ذکرِ خدا قوتِ مدافعت بڑھانے والے فیکٹرز ہیں۔ دورحاضر میں پروسیسڈ فوڈ‘ کیمیکل زہر کی آمیزش‘ مصنوعی فوڈ کلرز کے نقصانات کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ یہود‘ ہنود اور نصاریٰ مشرک قومیں ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ سیدنا موسیٰؑ چالیس روز کیلئے احکامِ خداوندی کے حصول کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے اور چالیس روز کے بعد احکامات خداوندی الواح مقدسہ پر تحریر شدہ لائے ۔ پیچھے سامری نے ایک بچھڑا بنایا جس میں سے ہوا وغیرہ گزرنے سے غوں غاں کی آوازیں آتیں ۔ اس نے قوم کو باور کرایا کہ یہی تمہارا خدا ہے۔ خداتعالیٰ نے سامری کو سزا دی کہ وہ کہتا پھرتا ’’لامساس‘‘ مجھے مت چھوڑ۔