گھر گھرانہ اور گرہستی
ایک زمانہ تھا جب لڑکیوں کا زیور تعلیم کی بجائے حیا اور سلیقہ ہوتا تھا۔۔۔تب دادی نانی چاچی تائی خالہ اور ماں کی گفتگو کا محور گھر گھر داری اور گرہستی ہوتی تھی۔۔۔
ماں اپنی بیٹی کو سگھڑ بنانے کے لیے ہر ممکن جتن کرتی تھی۔۔۔چھوٹی عمر سے ہی کھانا لگانے برتن دھونے اور جھاڑو لگانے کی ذمہ داری دے دی جاتی۔۔۔کام نہ کرنے یا ٹھیک نہ کرنے پر سرزنش کی جاتی۔۔۔اور جملہ ایک ہی ہوتا تھا۔۔کیا اگلے گھر جاکے ناک کٹوائے گی میکے کی کہ کچھ سکھایا نہیں۔۔۔بلند آواز میں بولنے باپ بھائیوں کے سامنے ہنسنے کھیلنے اور بے باکانہ چلنے پھرنے پر ٹوکا جاتا۔۔۔دوپٹہ بچپن سے لباس کا لازمی جزو ہوتا تھا۔۔۔۔اور پھر اسے پھیلا کر اوڑھنے کی تلقین بھی روز کی ذمہ داری ہوتی جسے ماں اور دادی بڑی زمہ داری سے نبھاتی تھیں
گھر کی اہمیت گھرانے کی حیثیت اور گرہستی کی افضلیت سمجھانا بیٹیوں کی تربیت کا لازمی جزو تھا۔۔۔۔رشتے نبھانے کا فن بیٹیاں ماں سے خود بخود سیکھ لیتی تھیں۔۔۔گھریلو ذمہ داریوں کو بطور فرض سمجھنا اور نبھانا اصل تعلیم سمجھی جاتی۔۔۔رسمی تعلیم کا مقصد صرف بول چال سیکھنا اور سمجھدار ہونا ہی تھا۔۔۔شادی سے پہلے ہی ماں سسرال کے آداب کا اس قدر ذکر کرتی کہ ہر لڑکی کو از بر ہوجاتے
صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے۔۔۔صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔۔کسی کے سامنے تیز آواز میں نہیں بولنا۔ اپنے اور میاں کے کپڑے اور دیگر چیزیں اچھی طرح سنبھالنی ہیں
ساس نندوں سے بنا کے رکھنی ہے۔۔۔ان کے سارے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہے۔۔۔ساس سسر اگر بوڑھے ہیں تو ان کا ہر طرح خیال رکھنا ہے۔۔۔۔سسرال کو اپنا گھر سمجھنا ہے۔میکہ پرایا گھر ہے وقت پہ آنا ہے وقت پہ جانا ہے۔۔۔یہ سب باتیں اس قدر دہرائی جاتیں کہ ہر لڑکی ذہنی طور پر سسرال کے لیے تیار ہوجایا کرتی۔ گھر گھرانے اور گرہستی سے بخوبی واقف ہوجاتی اور یوں زندگی اچھی گزرتی۔۔رشتہ داریاں بھی نبھ جاتیں اور گھر بھی گھر نظر آتاپھر ماحول بدلاحالات بدلے زمانے کے مزاج نے کروٹ لی اور لڑکیوں کا زیور تعلیم کو کہا اور سمجھا جانے لگا
اب تعلیم کی اہمیت سب سے زیادہ ہوئی۔۔۔حیا اور سلیقہ آہستہ آہستہ کم اہمیتی کا شکار ہوا۔۔۔پھر بھی سمجھدار مائوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ گرہستی سکھانے کی کوشش بھی جاری رکھی۔۔نئے دور میں رشتوں کی بنیاد ڈگری ہوگئی۔۔۔لیکن شادی کے بعد اس بنیاد پر کوئی عمارت کھڑی نہ ہوتی بلکہ گھر گھرانے اور گرہستی کی توقع جاری رہی۔۔۔ایسے میں وہ لڑکیاں کامیاب رہیں جن کی مائوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں نبھانا بھی سکھایا۔۔۔اور انھوں نے سیکھا۔۔۔یہاں تک تو گھر گھرانے اور گرہستی کے قیام کے امکانات برقرار رہے پھر ماحول۔۔۔ اور بدلا
حالات۔۔۔۔ اور بدلے زمانے نے مزید توقی کی اور موبائل آگیا اب تعلیم زیور تو رہی مگر موبائل کے زیر اثر۔۔اور گھر گھرانہ اور گرہستی غائب ہوگئی
ماوں کی کوششیں سلیقہ سکھانے کی بجائے زیادہ سے زیادہ نمبر لینے پر صرف ہونے لگیں۔۔اس کے لیے ہر خواہش پوری کرنے کی دوڑ شروع ہوگئ۔۔اور ہر خواہش میں اولین زاتی موبائل تھا۔۔۔ہر بچی کے ہاتھ میں موبائل ہے۔۔۔۔اب انہیں گھریلو ذمہ داریوں کی کوئی فکر باقی نہ رہی۔۔شادیوں کی بنیاد بھی ڈگری اور ماڈرن ازم کو ہی سمجھا جانے لگا۔۔۔گھر کا تصور میاں بیوی اور بچوں تک محدود ہوگیا۔۔باقی گھرانہ ناقابل برداشت ہوا۔اور گرہستی غیر اہم ہوگئی۔ ۔۔آج نہ ساس کی اہمیت ہے نہ سسر کی۔۔۔نند کا وجود ناقابل برداشت ہوگیا۔ ۔ دوسری طرف سسرال والوں کی توقعات قدیم روایات پر ہی مبنی رہیں جن کے نہ پورے ہونے پہ نبھائوناممکن ہوگیا۔۔۔۔آج ہماری بچیاں اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ بڑی بڑی ڈگریاں تھامے موبائل پکڑے زندگی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئی ہیں۔۔مگر گھر گھرانہ اور گرہستی ان کی سمجھ سے بالا ہے۔۔ تہزیب کا یہ روپ ان بچیوں کے سبب نہیں بلکہ ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں۔۔۔ہم نے تربیت کا انداز ہی بدل ڈالا۔۔۔اب ہماری گفتگو کا موضوع صرف تعلیم فیشن اور نمود و نمائش ہے۔۔بہو کی تلاش کے لیے معیار بھی صرف تعلیم اور جاب ہے تاکہ گھر کی معاشی بنیاد مضبوط ہو۔۔۔جبکہ اخلاقی تہذیبی اور سماجی بنیاد بے معنی چکی ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ گھر کا سکون اگر سب کی ضروت ہے تو وقت کی ضرورت کیا ہے۔۔۔کیا یہ نظر اندازی معاشرے کی تخریب کا باعث نہیں؟؟؟؟
سوچئے اور سوچ کو بدلیے تاکہ ہماری معاشرتی اقدار کے برقرار رہنے کا امکان پیدا ہو۔۔۔ورنہ یورپ زدہ انداز فکر اور طریق عمل سے گھر کا تصور مٹتا جا رہا ہے۔۔اور یہ ہماری تہزیب و تمدن کے چہرے پر ایک بھر پور طمانچہ ہے۔حالات یقینا مختلف ہوتے ہیں۔۔۔اس پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہاہے۔۔۔میں نے آج کی ترجیحات کے صرف ایک پہلو پر قلم اٹھایا ہے
موجودہ زمانے میں نئی نسل کو گھرداری کی تربیت نہیں دی جارہی جو بطور خاص لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ سو مسائل بہت بڑھ رہے ہیں۔۔یہ تو طے ہے کہ گھر عورت سے بنتا ہے۔
باقی سسرال کا سلوک رویہ اور حالات یہ الگ موضوع ہے۔حالات و واقعات کے مطابق ہر جگہ ہر ایک کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔۔۔بہر حال ٹھیک وہی ہے جو مثبت لائحہ عمل کو اپنائے۔۔۔
اور ہر ایک کا معاشرے میں دہرا کردار ہے۔۔۔جو لڑکی کہیں بہو ہے وہی کسی کی نند بھی ہے۔۔۔دونوں طرح کے معاملات ہر ایک کو درپیش ہیں۔۔۔
ایک کامیاب متمدن معاشرے کی بنیاد احساس۔۔محبت۔۔اور بھائی چارے میں ہی مضمر ہے۔۔ان سب کے بغیر تعلیم بے معنی ہے۔۔۔یہاں تعلیم کی اہمیت کو کم نہیں سمجھا گیا بلکہ تعلیم کے اصل مقصد سے روگردانی کی بات کی گئی ہے۔مرد ہو یا عورت تعلیم کا اولین مقصد انسان کی زہنی اور اخلاقی ترقی ہے۔