بلدیاتی انتخابات اور ڈینگی مہم
امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر وُہ انتخاب ہا رگئے تو دھاندلی کی وجہ سے ہو گا ۔ ایسے حالات پید اکیے جا رہے ہیں اور بے سرو پا پر و پیگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔ لہٰذا انہوں نے اپنی شکست کو دھاندلی ہی سمجھیں گے ۔ امریکی گذشتہ عام انتخابات میں بھی بیرونی مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے اور تحقیقات جاری رہیں تمام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ان میں حکومتی مداخلت یا با اثر شخصیات کے زور با زوسے رائے عامہ اپنے حق میں کرنے کی شکایات ترقی پذیر ممالک میں بہت عام ہوتی ہیں اور یہی حال پاکستانی سیاست کا ہے جو پارٹی جیتے تو انتخابات شفاف اور اگر ہار جائیں تو دھاندلی کا الزام لگانے میں دیر نہیں لگائی جاتی ۔ امریکی انتخابات سے یاد آیا کہ پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا کم و بیش اعلان ہو چکا ہے سیاسی وڈیرے نے غریبوں کے جنازوں ، گذشتہ کوئی سالوں سے فوت شدہ ووٹروں سے اظہار افسوس کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ شادی ہال کھلنے کے ساتھ وڈیروں کے ساتھ دولہوں کی تصاویر اور سیلفیاں دیکھی جا سکیں گی ۔ ابتدائی ملاقاتیں اور رابطے شرو ع ہو چکے ہیں ۔ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے بھی انہیں علاقوں میں کرائے گئے ترقیاتی کاموں کی تختیاں لگا رہے ہیں ۔ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اپنی بساط کے مطابق شب و روز کوشاں ہیں ۔ حکومتی حمایت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو ایک زعم یہ ہوتا ہے کہ انہیں تو بحر حال جیت جانا ہے ۔ وہ حکومتی اثر و رسوخ کو اپنی حمایت سمجھتے ہوئے عام آدمی کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تا ہم ملاقاتوں کے لیے کہا جا رہا ہے ۔ کرونا وبا سے تمام لوگوں نے کچھ بہتری محسوس کی ہے تا ہم احتیاطی عمل بھی جاری ہے ۔ حکومت کی جانب سے ڈینگی کی مہم شروع کر دی گئی ہے ۔ ڈینگی سے محفوظ رہنے کے لیے آگاہی مہم کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ اور ڈیرہ غازی خان میں بڑے طویل عرصہ کے بعد مقامی ایم این اے اور وفاقی وزیر مملکت ماحولیات عوامی ریلی میں شرکت کے لیے پہنچیں ۔ ایک مہم کی آگاہی کے لیے اصل خطرناک وبا کے پھیلا ؤ کے بچاؤ کرنے کے تمام حکومتی مشورے اور ہدایات نظر انداز کر دی جاتی ہیں ۔ اس قسم کی ریلیوں میں شرکت اور لوگوں کا یک جگہ پر جمع ہونا خطرات سے خالی نہیں ۔ چونکہ بلدیاتی انتخابات کی بھی آمد آمد ہے تو ہر حکومتی نمائندہ کسی نہ کسی بہانے سے عام ووٹر سے اپنے تعلقات کی بحالی کی جستجو میں ہے اور کوشش ہے کہ ناراض لوگوں کو منالیا جائے ۔ ورکرز اتحاد کے پلیٹ فارم سے مسلسل دباؤ بڑ ھ رہا تھا ۔ کہ باہر سے آنے والے بیرا شو ٹرز کو جو اہم ذمہ داریاں دی گئیں ہیں وہ واپس لیں ۔ یہ پتہ چلا ہے کہ اسی ورکرز اتحاد کے شدید دباؤ اور ناراضگی کی وجہ سے چند عہد یداروں سے ذمہ داریاں واپس لے لی گئی ہیں ۔ تحریک انصاف کے دیرینہ ورکرز اس پر راضی ہوتے کے نہیں اور بلدیاتی انتخابات میں ورکرز کی جانب سے کیا لا ئحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات میں پرائمری سطح پربنیادی کار کنان کا کردار اہم ہوتا ہے ۔
اپوزیشن کی دو اہم پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی بلدیاتی انتخابات کے دنگل میں حصہ لینے کے لیے رابطوں میں ہیں ۔ ہر دو جماعتوں میں سیٹ ایڈ جسمنٹ بھی ہو سکتی ہے ۔ جس سے حکومتی جماعت کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ تا ہم ان دو جماعتوں کا اصل ہدف عام انتخابات میں جس کی امید کی جارہی ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد عام انتخابات کا امکان ہو سکتا ہے لیکن آئندہ عام انتخابات بھی ہونے ہیں ۔ اور اُس میں باالخصوص پنجاب سے اہم اور سر کردہ سیاسی رہنماؤں کو متحرک کیا جا رہا ہے ۔ ایسے سیاسی رہنما جو تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔ یا اُن سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔ اُن کو بھی سیاسی میدان میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا تو بلدیاتی انتخابات کے اثرات سینٹ پر ضرور پڑیں گے ۔ سینٹ کے انتخابات سے پہلے اپوزیشن بھی اپنی چال اچھی طرح چلنے کی تاک میں ہیں ۔ خبر ہے کہ یہاں سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کو وزیر اعظم نے اسلام آباد آنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ اور میری اطلاع کے مطابق یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا اور یہ ملاقات ہو جانے کی اطلاعات بھی ہیں ۔ اگر سینٹ کے انتخابات ہو گئے تو تحریک انصاف سینٹ میں بھی فیصلہ کن پوزیشن میں ہو گی ۔ اس طرح تحریک انصاف کے لیے آئندہ انتخابات آسان تر اور اہم فیصلوں سے ملکی صورتحال کو بہتر بنانے کی بھرپور سعی کی جا سکتی ہے ۔ اور یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا ۔ ڈیرہ غازی خان میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے متحرک ہونے کے بعد یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ کہ کھوسہ ہاؤس پر دو پرچم لہرانے کی بجائے ایک ہی پرچم لہرا رہا ہو اور اتفاق و اتحاد سے معاملات چلائے جائیں ۔ سردار دوست محمد کھوسہ آئندہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک مضبوط جماعت بن کر ابھرنے کی اُمید رکھتے ہیں ۔ اور بلاؤل بھٹو زرداری کو ایسا لیڈر سمجھتے ہیں ۔ جس پر کوئی الزام نہیں اور سیاست میں مختلف داغوں سے بچے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ ہماری ملکی سیاست میں داغ تو اچھے ہوتے ہیں ۔ میری اُن سے بات ہوئی تو وہ بلاول زرداری کے سیاسی مستقبل سے ہر گز مایوس نہیں تھے ۔ لیکن آئندہ چھ ماہ کھوسہ سرداروں کی سیاست کا رخ متعین کر دے گا ۔ پاکستانی سیاست میں ہر وقت پر انہونی کی گنجائش رہتی ہے ۔ راقم نے انہیں حالات و واقعات سے باور کرانے کی کوشش کی اور تبایا کہ پاکستانی سیاست میں اگرچہ حرف آخر کے طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لیکن یہ بات بھی واضع ہے ۔ کہ عمران خان اس قوم کی آخری امید ہے اور ابھی متبادل کوئی بھی نہیں ۔ اس حکومت کو معاشی و سیاسی حالات کی بہتری کے لیے پورا موقع دیا جائیگا ۔ عالمی سطح پر عمران خان کی مقبولیت اور تعلقات کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائیگی ۔ تا ہم اس وقت بلدیاتی انتخابات میں کوشش یہی ہو گی کہ حکمران جماعت کامیابی حاصل کر ے تا کہ آئندہ عام انتخابات آسانی سے جیتاجا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ گلیوں ، نالیوں ، سولنگ اور سڑکوں کے بیچ ورک کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ امیدوار اپنے گروپ تشکیل دے رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بھی باہمی مشاورت سے اتحاد بنا رہے ہیں ۔ لوگ شکرادا کر رہے ہیں ۔ کہ اُن کے منتخب خواتین و حضرات اب کاموں اور ملتے جلنے میں تیزی دکھا رہے ہیں ۔