صرف ایک عمارت نہیں پورا شہر خطرے کی زد میں ہے
گزشتہ دنو ں کراچی کے علاقے اللہ والا ٹائون میں چار منزلہ عمارت گری جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے یقینا کراچی میں عمارت گرنے کا یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں بد قسمتی سے ارباب اختیار کی نااہلیوں کا یہ ایک طویل سلسلہ ہے جس سے کئی برس سے کراچی کے عوام مشکلات کا شکار بنے ہوئے ہیں گزشتہ دنو ں ٹائون میں گرنے والی عمارت یقینا غیر قانونی تعمیرات کا حصہ تھی مگر یقینا اس کے قصور وار اس میں مقیم افراد نہیں تھے کیونکہ چائناکٹنگ کسی غریب مزدور کی ایجاد نہیں ہے یہ اُن اشرافیہ کی ایجاد ہے جنھوں نے اس ملک اس شہر کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح نوچ کھایا ہے۔ اللہ والا ٹائون ایک ایسا علاقہ ہے جہاں زیادہ تر غریب مڈل کلاس افراد رہتے ہیں اس علاقے میں گیس بجلی پانی سیوریج کا کوئی بہتر نظام موجود نہیں جبکہ مختلف علاقوں کی طرح اس علاقے کو بھی سیاسی مقاصد اور ووٹ کی بھیک کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔کئی سالوں سے یہ علاقہ آباد ہے جس کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر ارباب اختیار نے اس علاقے کو بے یارو مددگار چھوڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ ہر گزرتے دن مشکلات کا شکار ہوتا جارہا ہے۔افسوس تو یہ کہ عمارت گرجاتی ہے قیمتی انسانی زندگیوں کا نقصان ہوجاتا ہے مگر اس شہر کی تینوں سیاسی جماعتوں کی اعلی قیادت اس علاقے میں جانے کی زحمت نہیں کرتی اپنے غلاموں کو سانحے کی جگہ پر صرف حاضری فوٹو سیشن کے لئے بھیج دیا جاتا ہے‘ نہ ہی گورنر سندھ نہ ہی وزیر اعلی سندھ سانحہ کی جگہ کا دور ہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں اور نہ ہی لواحقین کے غم میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی متاثرین کو حوصلہ دینے کی زحمت فرماتے ہیں کیوں کہ سندھ حکومت تو چاہتی ہے کہ لوگ اپنی مشکلات سے تنگ آکر خود ہی کسی حادثے کی نذر ہوجائیں ۔اس شہر کے مینڈیٹ کا دعوی کرنے والوں اس دھرتی کی تقسیم پر خون خرابے کی دھمکیاں دینے والوں نے کبھی اس شہر کے بہتر مستقبل پر سنجیدہ کوشش نہیں کی اگر صرف ۳۵ سال کے ماضی پر نظر ڈالیں تو پیپلزپارٹی ایم کیو ایم نے صرف اس شہر کا ذاتی مفادات میں استعمال کیا ہے‘ پیپلزپارٹی جو اس شہر کے اقتدار پر
مسلسل براجمان دکھائی دیتی ہے مگر کئی برس گزر جانے کے باوجود اس شہر کے مسائل کو حل کرنے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے۔یقینا غیر قانونی تعمیرات اورتجاوزات نے اس شہر کے مسائل میںہوش ربا اضافہ کیا ہے جسکی روک تھام کے لئے جائز اقدامات کیئے جانے چاہئیں معزز سپریم کورٹ بھی کئی بار کراچی کے معاملات غیر قانونی تعمیرات غیر قانونی تجاوزات کے خلاف فیصلے دیتی رہی ہے مگریہ بااثر افراد قانون کی گرفت میںآنے سے قاصر ر ہے جس سے یہ محسوس ہوا کہ ان بااثر اشرافیہ کے سامنے شاید قانون بہت کمزور ہے ہر عدالتی فیصلے کے بات قانون حرکت میں آنے کے بجائے سیاسی اشرافیہ حرکت میں آجاتی ہے چند روز پہلے چیئر مین پیپلزپارٹی غیر قانونی تجاوزات پر عدالتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر شور مچاتے نظر آئے کہ پہلے گھر دو پھر غیر قانونی گھر گرائے جائیں گے ۔اب کوئی ان محترم سے سوال کرے کہ روٹی کپڑا اور مکان توآپکی کی جماعت کا پاپولر نعرہ ہے جس کا وعدہ آپ اپنے ہر جلسے میں عوام سے کرتے دکھائی دیتے ہیں اب اس نعرے کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے آج آپ عدالتوں سے غریب عوام کو گھر دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں یقینا یہ ہی وہ غیر سنجیدہ سیاسی رویہ ہے جس نے اس ملک اور خاص کر پچھلے ۱۳ سال میں سندھ خاص کر پاکستان کے معاشی حب کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی آج بھی یہ شہر محرومیوں کی گردش میں انصاف کی تلاش میں ہے مگر افسوس کہ ملک بھر کی کفالت کرنے والے شہر کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے ۔ناجائز تعمیرات غیر قانونی تجاوزات کا بدلہ بھی غریب عوام سے لیا جارہا ہے کراچی میں گرنے والی عمارتیں ایک بہت بڑاالمیہ ہیں جو قیمتی انسانی زندگیوں کے لئے نقصان کا سبب بنا ہوا ہے ایک غریب فیملی کا سب بڑا خواب اپنا ذاتی گھر ہوتا ہے جو وہ برسوں محنت کر کے پورا کرتا ہے تاکہ اس کی اولاد سکون سے اپنی زندگی اپنی ذاتی چھت کے سائے میں گزارے مگر جب اس کا یہ خواب غیر قانونی غیر معیاری تعمیرات کی نذر ہوجاتا ہے تو اس پر قیامت برپا ہوجاتی ہے اور بد قسمتی سے اس سانحے میں اس کی نسل ہی مٹ جائے تو سوچیں اس پر کیا گزارتی ہوگی ۔گزشتہ دنوں اللہ والا ٹائون میں پیشہ آنے والا سانحے میں کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا اس عمارت میں موجود ماں اور تین بچے ہلاک ہوگئے جبکہ باپ نوکری پر ہونے کی وجہ سے محفوظ رہا مگر اس شخص کا تو سب کچھ لٹ گیا ۔اسی طرح کے کئی دل خراش مناظر عمارتیں گرنے کے موقع پر دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر ارباب اختیار خوب سیاست چمکاتے ہیں کیوں کہ ان کے خوبصورت محل ہر اعتبار سے محفوظ ہیں جن میں غریب عوام کی چیخیں ان کو سنائی نہیں دیتی۔اللہ والا ٹائون میں گرنے والی عمارت اور اس کے ساتھ منسلک عمارتیں اس وقت مزید کسی اور حادثے کا سبب بن سکتی ہیں جس میں کئی قیمتی انسانی زندگیوں کا نقصان ہوسکتا ہے اس عمارت کے گرنے کے بعد علاقے میں خوف کی کیفیت ہے جس کا فوری طور پر سد باب ہونا چاہیئے۔ اگر گرنے والی عمارت سے منسلک عمارتیں کمزور ہوگئی ہیں ان میں رہائش رکھنے سے مزیدجانی مالی نقصان کا اندیشہ ہے تو سب سے پہلے سندھ حکومت متاثرین کو اپنا مکان مہیا کرے یا کم از کم مکان کی مالیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر رقم کی فراہمی کو ممکن بنائے اور ان مخدوش عمارتوں کو فوری خالی کراکے زمین بوس کرے تاکہ مزید جانی مالی نقصان سے بچاجاسکے۔ساتھ ہی کراچی شہر کی تین کروڑ سے زائد آبادی وزیر اعظم خان اور محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ خدارا غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا ہر ممکن خاتمہ کیا جائے مگر اس اقدام کو اُٹھانے سے پہلے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو جنم دینے والے سیاسی ٹولے اور بااثر افراد کو قانون کی مکمل گرفت میں لا کر سزائیں دی جائیں انکی لوٹی ہوئی دولت سے گرنے والی عمارتوں کے متاثرین لواحقین کی مدد کی جائے ۔غیر قانونی تعمیرات غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ اُس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اصل قصور وار قانون کی گرفت میں ہوگا یہ ایسا ہی ہے کہ جب تک آپ زیادتی کے کیس میں ملزم کو سر عام پھانسی نہیں لگائیں گے اُس وقت تک زیادتی کے کیسز پر قابو نہیں پایا جاسکتا بالکل اسی طرح جب تک معزز ادارے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو جنم دینے والو کو سزائیں نہیں دیں گے اُس وقت تک صرف ایک عمارت نہیں بلکہ پورا شہر خوف وہراس میں مبتلا رہے گا۔ہمیں معزز اداروں کے صرف فیصلوں کی نہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔