وارفتگی
آتش دل بھڑک رہی ہے
حسن جاناں دہک رہا ہے
یہ کون آیا کہ دل کا گلشن
خوشبوئوں سے مہک رہا ہے
درد فرقت میں کاسہ چشم
ابل رہا ہے چھلک رہا ہے
ظلمتیں ہیں، دبیز گرچہ
ایک جگنو چمک رہا ہے
کیجئے اپنے دل سے باہر
خار جو بھی کھٹک رہا ہے
راکھ کی تہ میں ایک ذرہ
اب بھی شاید سلگ رہا ہے
اپنی باہوں میں تمام لیجئے
قلب عاشق جو بہک رہا ہے
شرافت ضیاء