منگل ‘ 4 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 22؍ ستمبر 2020ء
پی ڈی ایم کا نام مسلم لیگ (ن) نے تجویز کیا
اب اگر اس مخفف کو آسان زبان میں لکھیں تو ’’پڈم‘‘ بنتا ہے۔ جو گنتی کے پدم کے قریب ترین ہے۔ ہندی اردو گنتی میں کروڑ کے بعد ارب پھر کھرب پھر پدم اور پھر نیل شمار ہوتا ہے۔ اب پدم کا مطلب 100 کھرب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کھربوں پتی۔ اسے ہم پدم پتی معلوم نہیں کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔
ویسے اگر غور سے دیکھیں تو اپوزیشن کی اے پی سی میں زیادہ تر ارب پتی چہرے ہی نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کروڑ پتی ملتے ہیں۔ پھر لکھ پتی یا صرف اپنی پتنی کے پتی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے اس اتحاد کا نام ’’پدم‘‘ زیادہ مناسب لگا ہے اگر یہ اتحاد حقیقی معنوں میں ملک و قوم کیلئے سعد ہو‘ اس کے دم قدم سے ملک میں جمہوریت کو فروغ ملنا ہے تو اس کے مقاصد پورے ہوں۔ بصورت دیگر ڈر ہے کہ کہیں یہ پدم اپوزیشن اتحاد کیلئے رانی پدما وتی نہ بن جائے جس کی وجہ سے مہاراجہ چتوڑگڑھ کی جان بھی گئی اور چتوڑگڑھ کا قلعہ بھی علائوالدین خلجی کے ہاتھوں فتح ہوا۔
رہی بے چاری پدماوتی تو اسے افسانہ نگار قسم کے مؤرخین نے ازخود اپنی چتا کی آگ میں جلا کر مار دیا تھا۔ کہیں اس پی ڈی ایم کا بھی یہی انجام نہ ہو۔ پدم کی اندرونی کہانی سن کر حقائق جان کر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھان متی کا کنبہ زیادہ دیرپا نہیں ہوگا اور کاٹھ کی ہنڈیا کی طرح بار بار نہیں چڑھے گا۔ آگے وقت خود بتائے گا کہ کیا ہونا ہے۔ یہ پی ڈی ایم اگر ایم آر ڈی کی طرح مؤثر نکلا تو حکومت کیلئے مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔
٭٭٭٭
برطانوی وزیراعظم تنخواہ میں کٹوتی سے پریشان‘ بیٹے کیلئے آیا نہیں رکھ سکیں گے
یہ ہوتے ہیں عوام کے خادموں کے حالات۔ ذرا سی تنخواہ میں کٹوتی کیا ہوئی‘ انہیں جان کے لالے پڑ گئے کہ گھریلو اخراجات کیسے پورے ہونگے۔ گھریلو ملازموں کی تنخواہ کہاں سے دیں گے۔ یہ سب کسی افریقی پسماندہ ملک میں نہیں ہو رہا۔ دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہمارے سابق حکمران برطانیہ میں ہو رہا ہے جس کے اقتدار میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ وہاں عوام کے خادم یعنی حکمران رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں۔ ریاست کی طرف سے ملنے والی عام تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں۔ وہاں کے حکمران ماسوائے ملکہ برطانیہ کے کوئی بھی محلات میں‘ محلات نما مکانوں میں نہیں رہتے۔ ان کے اخراجات بھی شاہانہ نہیں ہوتے۔ نہ ان کی سکیورٹی پر لاکھوں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ وہ عام شہریوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔
حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت سے نکلنے کے بعد بھی ان کی زندگی یکساں ہوتی ہے۔ ہماری طرح ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں نہیں ہوتا۔ اب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو ہی دیکھ لیں۔ برطانوی معیشت کی کرونا کے ہاتھوں زبوں حالی کے بعد ان کی بھی تنخواہ میں کٹوتی کی گئی ہے۔ وہاں صرف سرکاری ملازموں پر ہی چھری نہیں چلائی جاتی‘ حکمران بھی ذبح ہوتے ہیں۔ اب ان کے دوست بتا رہے ہیں کہ بورس جانسن پریشان ہیں کہ اب وہ اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کیلئے آیا بھی نہیں رکھ سکیں گے جو ایک سال کا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں دیکھ لیں آیائوں‘ مامائوں‘ ماسیوں کی فوج ظفر موج بڑے گھروں میں کام کاج کیلئے اوردوسروں پر اپنی دولت کا رعب جھاڑنے کیلئے موجود ہوتی ہے۔ جن کی تنخواہیں بھی حکمران طبقہ سرکاری خزانے سے دیتا ہے۔
٭٭٭٭٭
سردیوں میں گیس کے بڑھتے بحران کا خدشہ ہے: سوئی سدرن
کیا عجب قسمت پائی ہے ہم پاکستانیوں نے‘ یکے بعد دیگرے ایک سے بڑھ کر ایک بحران ہمارے ہی حصے میں آتا ہے۔ کبھی بجلی کا‘ کبھی پانی کا‘ کبھی آٹے کا‘ کبھی چینی کا۔ کبھی خشک سالی کا‘ کبھی سیلاب کا اور کبھی گیس کی قلت کا۔ اس حساب سے دیکھیں تو ہم پاکستانیوں کو ’’مرد بحران‘‘ کا خطاب ملنا چاہئے۔ دنیا بھر میں لوگ مرد میدان ہوتے ہیں‘ ہم مرد بحران ہیں۔ اس پر ہمیں حق ہے کہ ہم…؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آکر مجھے شکار کرے
کہہ سکیں۔ اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیںہوگا۔ ان تکلیف دہ حالات کے باوجود ہم اپنے حال اور مستقبل سے بے نیاز نظر آتے ہیں۔ کسی اور قوم کا ان حالات سے پالا پڑا ہوتا تو وہ اس سے نکلنے کا تدراک کرتی مگر ہم ہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ایران برسوں سے ہمیں گیس اور تیل کے ساتھ بجلی کی فراہمی کے معاہدے پر اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کہہ رہا ہے‘ مگر ہم ہیں کہ امریکہ کے خوف سے ایسا نہیں کر رہے۔ جبکہ بھارت اور دیگر کئی ممالک بشمول چین کے ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاہدوں پر عمل پیرا ہیں مگر ہم ہیں کہ ہماری ٹانگیں پابندیوں کے خوف سے تھرتھر کانپ رہی ہیں۔ ایران معاہدے کے مطابق اپنے حصہ کا کام مکمل کر چکا ہے۔ ہمارے ہاںبھی کافی کام ہو چکا ہے۔
اب اگر ہمیں سردیوں میں گیس کے سنگین بحران سے بچنا ہے تو ہمیں فوری طورپر ایران کے ساتھ پائپ لائن مکمل کرکے وہاں سے گیس کا حصول ممکن بنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ بجلی فری اور تیل بھی ارزاں نرخوں پر ملے گا۔ امریکہ نے آکر ہمیں تیل یا گیس نہیں دینی۔ یہ ہمیں ازخود ایران سے ہی لینا ہونگی۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر ہمیں سردیوں میں ٹھنڈے پڑے چولہوں اور فیکٹریوں کی بندش کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
٭٭٭٭ایم کیو ایم کا 24 ستمبر کو ’’کراچی مارچ‘‘ کا اعلان
تو جناب ہو جائیں تیار اب باقی سیاسی جماعتوں کو ایکشن میں دیکھ کر ایم کیو ایم (پاکستان) بھی انگڑائیاں لینے لگی ہے۔ کراچی پر عرصہ دراز سے ایم کیو ایم پنجے گاڑے بیٹھی ہے۔ لوگ سرعام کہتے ہیں کہ کراچی کے مسائل کی ذمہ داری سندھ حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کراچی میں امن و امان اور لوٹ مار اور قتل و غارت گری کی وجہ سے گلیاں اور بازار محفوظ نہیں ہیں بھتہ خوری عام ہے ان نیک اعمال میں حصہ بقدر جثہ سب سے زیادہ ایم کیو ایم کا ہے ویسے ہی جس طرح دیہی سندھ میں حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی بدولت ڈاکو راج قائم ہے۔ اب خدا جانے مارچ کے منتظمین کن حقوق کے لئے یہ مارچ کر رہے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ خود کراچی کے عوام اپنے حقوق کے حصول کے لئے باہر نکلیں۔ اپنے پر راج کرنے والے چوروں، ڈاکوئوں ، رسہ گیروں سے نجات کی راہ نکالیں۔ یہ مافیاز ختم ہوں گی تو کراچی خودبخود مارچ یعنی موسم بہار کا روپ دھارے گا اور ہر طرف امن و سکون قائم ہو گا۔ لوگ اطمینان کا سانس لیں گے۔ کراچی ایک بار پھر عروس البلاد بن کر دبئی، شارجہ اور ممبئی کو شرمائے گا۔
٭٭٭٭٭