شیخ رشید فو ک وزڈم کی نعمت سے مالا مال ہیں۔ شیخ رشید کو ہنر آتا ہے کہ کونسی بات کب کہاں اور کس وقت کرنی ہے۔ انہیں علم ہے کہ کابینہ میں ان کی نہیں سنی جائے گی، توو ہ سر عام بات کردیتے ہیں۔ کابینہ میں یہ بحث ہوتی رہی ہو گی کہ نواز شریف فیکٹر سے کیسے نبٹا جائے۔ شیخ رشید پہلے اشاروں کنایوں میں بات کرتے رہے کہ ان کو جانے دو تاکہ ہم دل جمعی اور یک سوئی سے حکومت چلا سکیں۔ پھر یہی بات انہوںنے بلند آہنگ میں کہی تب تک حکومت کا ایک ایک فرد نواز شریف سے جان چھڑانے کو تیار تھا۔
اب انہوںنے ایک کتاب لکھ ماری ہے۔ اس کی رونمائی ہوئی۔ میںنے برادرم میاں عامر محمود سے فون پر شکوہ کیا کہ ایک اچھی تقریب میں مجھے نہ بلایا۔ یہی گلہ میںنئے شیخ رشید سیء بھی کیا ۔انہوںنے یہ کہہ کر جان چھٹرا لی کہ تقریب کاا ہتمام کتاب کے پبلشرز نے کیا تھا۔ میںنے شیخ صاحب سے نہیں کہا کہ کتاب تو ٹی سی ایس کر دیں کیونکہ وہ اپنی تقریر میں کہہ چکے تھے کہ کتاب پڑھنی ہے تو خرید کر پڑھیں،میں اردو بازار جا کر ایک نہیں، تین کتابیں خرید لایا تاکہ صاحب ذوق دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دے دوں ۔ میری حقیر رقم سے شیخ رشید کو کچھ منافع ہوگیا تو شیخ صاحب کی دعائیں لوں گا ۔
میں اس کتاب پر کوئی بھی تبصرہ اسے پڑھے بغیر کر رہا ہوں۔ شیخ صاحب جانتے ہیں کہ کچھ کتابیں پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں ۔کچھ سونگھنے کے لئے، کچھ سجانے کے لئے اور کچھ تھڑے والوں کے مفاد کے لئے ۔اسی کے عشرے میں ،میںجب کبھی پنڈی جاتا تھا ۔ مجھے جنرل شفیق الرحمن ۔ میجر سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان اور صدیق سالک سے ملنا ہوتا تھا تو میں لاہور سے اس حساب سے چلتا کہ بنک روڈ پنڈی اتوار کے روز گیارہ بجے پہنچوں ۔یہ تمام بزرگ وہاں تھڑوں پر پرانی کتابیں ٹٹول رہے ہوتے۔ ایوب خان کی کتاب۔۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔۔ ۔پریس سے نکلتے ہی ڈبہ ہو گئی ۔ میں نے کافی ہائوس لاہور کے سامنے تھڑے سے اٹھنی میں خریدی ۔ ایک بار وہیںکتابیں دیکھ رہا تھا کہ مجھے اپنے استاد ارشاد حقانی کی کتاب سفرنامہ چین مل گئی۔میں نے حقانی صاحب کو بتایا تو کہنے لگے میرے پاس اس کاکوئی نسخہ نہیں۔ میںنے انہیں یہ ہدیہ کر دی۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
شیخ رشید نے اپنی کتاب کی رونمائی کی تقریب کو حکومتی کارکردگی کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کرنے میں عار نہ سمجھی۔ کہنے لگے عمران حکومت بڑے بڑے کام کررہی ہے مگر ہماری بدنصیبی ہے کہ اپنے کارناموں کی تشہیر نہیں کر پاتے۔ ان کارناموں میں انہوںنے اپنے محکمے کے ایم ایل ون منصوبے کا بھی ذکر کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کا حلیہ نکھار دے گا۔ اسی بات کو لوگ گیم چینجرکہتے ہیں۔ ایم ایل ون پر بہت کم بات کی جاتی ہے جبکہ یہ منصوبہ سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے۔اب توبا ضابطہ طورپر اس کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک چینی فرم کو ے دیا گیا ہے۔ یہ کارنامہ سی پیک اتھارٹی کے قیام کے بعد جنرل عاصم باجوہ نے انجام دیا ہے ۔ اس پر عمران حکومت جتنا فخر بھی کرے کم ہو گا۔
میں بلٹ ٹرین کا عاشق ہوں۔ پیرس میں کئی بار گیا تو بار بار برسلز کا سفر کرتا رہا۔ پیرس سے ٹنل کے ذریعے لندن کا سفر بھی کیا۔ جاپان میں ہیرو شیما سے ٹوکیو تک ایک ہزار میل کا سفر ٹھیک پانچ گھنٹوں میں کیا۔ نہ ایک منٹ کم ، نہ زیادہ۔ بلٹ ٹرین کے سفر کا اپنا ہی مزہ ہے جو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں ایم ایل ون بلٹ ٹرین تو نہیں ہو گی مگر پاکستانیوں کے لئے یہ نعمت غیر مترقبہ ہو گی۔ چین کے ذریعے پشاور کراچی کا سفر دنوں کا نہیں، گھنٹوں کا رہ جائے گا۔ اسے اللہ کی نعمت سمجھنا چاہئے اور عمران حکومت کو اس کی تشہیر کھل کر کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کی آس تو جاگے۔ ان کی آنکھوں میں خوشنما خواب تو خوشبو بکھیریں۔ کچھ اخراجات ضروری ہوتے ہیں جیسے انسان کو روٹی پر خرچ کرنا ہی پڑتا ہے۔اسی طرح سی پیک کے منصوبوں کی تشہیر پر جو خرچ ہو گا تو جسد قومی کی رگ رگ میں نیا خون دوڑائے گا۔
مجھے سمجھ نہیں ا ٓرہی کہ میں کتاب کے بارے میں بھی کچھ لکھوں یا سی پیک کا شاہنامہ گاتا جائوں،کتاب پر لکھنا بھی چاہوں تو نہیں لکھ سکتا۔ باقی کئی احباب ضرور لکھیں گے۔ شیخ رشید صاحب کو یہ جان کر افسوس ہو گا کہ میں کتاب پڑھنے سے معذور ہوں کیونکہ تین سال سے بینائی کی نعمت سے محروم ہوں۔ مگر دل کی آنکھیں کھلی ہیں اور شیخ رشید میرے دل میں بستے ہیں۔ بلکہ ہر دوست کے دل پر ان کی حکومت قائم ہے۔ وہ چودہ قلم دانوں کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی دوستوں کے دلوں کا شمار بھی کر لیں۔ ان کے ہاتھ میں لاکھوں قلم دان ہیں۔دلوں پر راج کرنے کے لئے حکومت میں ہونا ضروری نہیں۔ شیخ رشید پہلی مرتبہ جیل گئے تو تب بھی وہ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے تھے۔
میںنے ابھی ٹی وی آن کیا ہے تو ایم ایل ون کاا اشتہاروں چلتا سنا ہے۔ شیخ رشید کی بات اس قدر جلدپوری ہو گئی کہ برق رفتاری کو بھی مات کر گئی۔ اشتہار چل رہا ہے تو ٹرین بھی چلے گی اور عمران حکومت بھی چلے گی اور اشتہاروں سے ہمار امیڈیا بھی چلے گا۔ چلتی کا نام ہی گاڑی ہے۔میرا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ کتاب کا گھونگٹ تو اٹھائوں۔لال حویلی سے اقوم متحدہ تک۔ یہ کتاب مصنف کی پچاس سالہ سیاست کا نچوڑ ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024