ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھیں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا کوئی قدم نہ اٹھائیں
اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں پی ڈی ایم کی تشکیل اور حکومت کیخلاف مرحلہ وار تحریک چلانے کا اعلان
ملک کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی میزبانی میں گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے نیا سیاسی اپوزیشن اتحاد تشکیل دے دیا ہے جس کے پلیٹ فارم پر آئندہ ماہ اکتوبر سے مرحلہ وار حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اے پی سی میں مسلم لیگ (ن) کے رہبر اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف لندن سے اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کراچی سے بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف‘ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان‘ آفتاب احمد خان شیرپائو اور مریم نواز کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی‘ قومی وطن پارٹی‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘ جمعیت اہل حدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے قائدین بھی اے پی سی میں شریک ہوئے۔
آل پارٹیز مشترکہ پریس کانفرنس میں جاری کئے گئے 26 نکاتی مشترکہ اعلامیہ میں جو مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی کے قائدین کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔ وزیراعظم عمران خان کے فوری استعفے کا تقاضا کیا گیا اور حکومت مخالف احتجاجی تحریک میں وکلائ‘ تاجروں‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ طلبہ‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی شامل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق پی ڈی ایم سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کیلئے پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری‘ سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کریگی جس میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن بھی شامل ہے۔ اعلامیہ کے مطابق حکومت کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کر دیا گیا ہے اور حکومت مخالف مرحلہ وار تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق آئندہ ماہ اکتوبر سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر مختلف شہروں میں مشترکہ جلسوں کا انعقاد کیا جائیگا جو نومبر تک جاری رہیں گے۔ دسمبر میں صوبائی دارالحکومتوں میں بڑے احتجاجی مظاہرے کئے جائینگے اور آخری مرحلہ میں آئندہ سال جنوری میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کیا جائیگا۔
اے پی سی میں حکومت کیخلاف جو چارج شیٹ قرارداد کی شکل میں جاری کی گئی اسکے مطابق حکومت نے ریکارڈ توڑ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ ٹیکسوں کی بھرمار سے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پارلیمان کو بے وقعت کرکے مفلوج کردیا ہے‘ عوام کے بنیادی آئینی حقوق کے منافی قانون سازی کی جارہی ہے‘ میڈیا پر تاریخ کی بدترین پابندیاں عائد کی گئی ہیں‘ ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور حکومت سقوط کشمیر کی ذمہ دار ہے جبکہ حکومت کی افغان پالیسی بھی مکمل ناکام ہے۔ میاں نوازشریف نے ویڈیو لنک خطاب میں اپنے سابقہ بیانیہ پر ہی صاد کیا اور کہا کہ ہماری جدوجہد موجودہ حکمرانوں کو لانے والوں کیخلاف ہے‘ اگر ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی حکمرانی نہ آئی تو ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں عندیہ دیا کہ لگتا ہے اے پی سی کے بعد پہلا شخص میں ہوں گا جو جیل جائیگا۔ انکے بقول وہ جب سے سیاست میں آئے ہیں انہوں نے میڈیا پر ایسی پابندیاں نہیں دیکھیں۔
اے پی سی میں میاں نوازشریف کے خطاب کے حوالے سے حکومتی حلقوں کی جانب سے خاصہ برہمی کا اظہار کیا جارہا تھا اور ایک مفرور مجرم کے خطاب کی کوریج روکنے کا عندیہ مل رہا تھا تاہم وزیراعظم عمران خان نے وسیع الظرفی کے ساتھ حکومتی مشیروں کی نوازشریف کا خطاب روکنے کی تجویز مسترد کر دی اور انکی تقریر نشر کرنے کی اجازت دیتے ہوئے باور کرایا کہ نوازشریف جھوٹ بول کر خود ہی ایکسپوز ہونگے۔ اسکے برعکس وفاقی وزراء اور دوسری حکومتی شخصیات کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی اور اس میں میاں نوازشریف کے خطاب پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور ریاستی اداروں سے تقاضا کیا گیا کہ وہ ایک مفرور مجرم کی تقریر کا نوٹس لیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید کے بقول سارے اپوزیشن والے مل کر بھی عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بقول اپوزیشن کسی اور کو نہیں‘ خود کو دھوکہ دے رہی ہے اور محض ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شہری آزادیوں اور اجتماع کے آئینی حق کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں کو اصلاح احوال کے نکتۂ نظر کے تحت حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے اور جلسے جلوسوں کی صورت میں عوم کو موبلائز کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اس سے قومی مفادات پر زد نہ پڑتی ہو اور ملک کی سلامتی کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ اپوزیشن ہر دور میں حکومت یہ حق استعمال کرتی رہی ہے اور ماضی کی سول اور جرنیلی آمریتوں کیخلاف مختلف اپوزیشن اتحاد بھی تشکیل دیئے جاتے رہے اور حکومت مخالف تحریکیں بھی چلائی جاتی رہیں۔ اس حوالے سے ایوب خان کیخلاف کمبائنڈ اپوزیشن الائنس (سی او پی)‘ جس کا یحییٰ خان کے اقتدار کیخلاف تسلسل رہا‘ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے)‘ ضیاء الحق کیخلاف موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ایم آر ڈی)‘ اسکے توڑ کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) اسکے مقابلے میں تشکیل پانے والے اپوزیشن اتحادوں پاکستان عوامی اتحاد‘ پی ڈی ایف‘ پی ڈی اے‘ جن کے پلیٹ فارم پر نوازشریف کی حکومت کی مزاحمت کی جاتی رہی اور پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت کیخلاف تشکیل پانے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور اسکے بعد آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) اور جنرل پرویز مشرف کیخلاف تشکیل پانے والے اپوزیشن اتحاد الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (اے آر ڈی) کے پلیٹ فارموں پر آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے طویل تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ہر سیاسی اتحاد کی اپنی تاریخ ہے۔ اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے مابین چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاق جمہوریت) طے ہوا تو اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر میاں نوازشریف اور عمران خان نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جس پر میاں نوازشریف قائم نہ رہ سکے۔ اسی طرح میاں نوازشریف نے 2008ء تا 2013ء پیپلزپارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا جبکہ 2013ء سے 2018ء تک عمران خان نے میاں نواشریف کی حکومت کی سخت مزاحمت کی اور لانگ مارچ کے علاوہ ڈی چوک اسلام آباد میں ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا اور پھر ملک کے لاک ڈائون کا پروگرام بھی طے کیا۔
اپوزیشن کی ان تحریکوں کا مقصد تو جمہوریت کی بحالی اور استحکام کا ظاہر کیا جاتا رہا مگر بدقسمتی سے اکثر اپوزیشن تحریکیں جمہوریت کو کمزور یا ڈی ریل کرنے کی نوبت لانے پر منتج ہوتی رہی ہیں جبکہ عام آدمی کا مقدر کسی اپوزیشن تحریک کے نتیجہ میں بدلہ نہ سلطانیٔ جمہور میں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام آج بھی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گھمبیر مسائل کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور انکے اضطراب کو بھانپ کر ہی موجودہ اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک کیلئے منظم ہونے کا موقع مل رہا ہے جبکہ اسکی صفوں میں اتحاد کا اندازہ چیئرمین سینٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اور اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی مسودات قانون کی منظوری روکنے میں اٹھائی گئی ہزیمت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اسکے باوجود اپوزیشن نے پی ڈی ایم تشکیل دیکر مرحلہ وار حکومت مخالف تحریک کا اعلان کیا ہے تو اس کیلئے اسے روزمرہ کے بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کیخلاف ابھرتے عوامی اضطراب سے ہی حوصلہ ملا ہے چنانچہ حکومت نے پی ڈی ایم کی تحریک کا مؤثر توڑ کرنا ہے تو اسے ترجیحی بنیادوں پر عوام کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا ہوگی جبکہ اپوزیشن کی تحریک کو بزور دبانے کی پالیسی جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے پر منتج ہو سکتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اس کا احساس و ادراک کرنا اور ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔ آج جمہوریت استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہے تو اسکی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا بہرصورت کوئی دانشمندی نہیں ہوگی۔