خدا نے کیوں درد آشنا دیا ہے
اکنامکس کہتی ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود ہیں اورذرائع محدود ہیں ۔ لیکن قرآن ِ کریم نے بتایا کہ خواہشات محدود ہیں جبکہ اللہ کی نعمتیں لا محدود ہیں ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں "اور تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے "۔ پوری دنیا افراتفری کا شکار ہے خاص طور پر پاکستانی سیاستدانوں کی دنیاوی تکمیل ِ خواہشات کی بے چینی کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ حصولِ اقتدار ان کی فائنل Destinationہے ۔
سُنا ہے حشر میں کوئی کسی کا نہ ہوگا
مگر یہ سلسلہ تو ابھی سے عروج پر ہے
ایک سابقہ صدر بیانِ عالیشان داغتے ہیں کہ حکومت گرانا مقصود نہیں جمہوریت بحال کرنا مقصد ہے ۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی جمہوریت کسے کہتے ہیں ؟ جنھوں نے پاکستان کے انتہائی اہم اداروں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال کر تباہ کیاآج P.I.A اور سٹیل ملز کے ساتھ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے وفاق کو کمزور کر کے جانے والوں نے پاکستان کی روح پر کونسا وہ زخم ہے جو نہ لگایا ہو مگر لگتا ہے ان کا احساس اور ضمیر مر چکا ہے اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کچھ لوگ اوائل عمر میں ہی مر جاتے ہیںا نھیں صرف دفن ساٹھ ، ستر یا اسّی سال کی عمر میں کیا جاتا ہے ۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے ان لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے ۔
پنجاب سے ایک لیڈر کہتا ہے کہ ملک میں برائے نام جمہوریت ہے ۔ سابقہ ادوار میں بالکل ایسا ہی تھا جناب پاکستان میں جمہوریت ایک سوالیہ نشان ہے اس لیے کہ سابقہ دور میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی ہی تھی جو کہ ڈکٹیٹر شپ کی ایک خوبصورت شکل ہے بلکہ اگر میں کہوں کہ ڈکٹیٹر شپ کے اوپر چڑھے ہوئے ریشم کے غلاف کو جمہوریت کہتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
لندن سے آواز اُٹھتی ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنایا جائے۔ اگر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بن گیا تو سارے کے سارے بے نقاب ہو جائینگے۔ مجھے افسوس ہے کہ آپکے وہ کون سے ایڈوائزرز ہیں جو اداروں کیخلاف جناب سے زہر فشانی کرواتے ہیں ۔ یہ آپکے دوست نہیں دشمن ہیں ۔ یہی وہ آستین کے سانپ ہیں جو ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں یہ ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بن کر ففتھ جنریشن وار کا حصہ بنتے ہیں میرا مشورہ ہے کہ خود سے فیصلے کریں اور جس ملک پر بار بار حکومت کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے اسکے اداروں کو خوامخواہ ذاتی عناد میں متنازعہ نہ کریں۔ کیونکہ آج پاکستان کے دشمن ہی پاکستانی اداروں کو کمزور کر کے پاکستان کو توڑنے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے سرگرداں ہیں ۔ اب پاکستان پر لگے گہرے زخموں پر مرہم رکھنے کا وقت ہے اداروں کیخلاف بیانیہ ملک سے بے وفائی ہے ۔ بہت سے بڑے لوگ تو ملک سے باہر بھی بادشاہوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر ہمارا جینا مرنا تو یہیں ہے کوئی دوسری چوائس نہیں ہے۔ اپنے نعرے لگانے والوں کے ہی بچوں کا خیال کر لیں۔
احتجاج جمہوری حق ہے مگر کبھی کبھی لگتا ہے کچھ لوگوں کا احتجاج بالکل ایسے ہے جیسے کوئی ’’نیک نام‘‘ عورت کیخلاف احتجاج کرنے کیلئے نکل آئے۔ جناب اس ملک کو اس حال میں پہنچا کر اپنی حالت سدھارنے والے کس منہ سے پاکستان میں جمہوریت کی بات کر تے ہیں ۔ کبھی کبھی سب سیاستدانوں کو اپنے ضمیر کی عدالت میں جانا چاہیے جہاں غلط فیصلے نہیں ہوتے ۔ موجودہ زیراعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنے والے ضرور سوچیں کہ تمھیں کس نے سلکیٹ کیا تھا ؟کتنی جدو جہد کی تھی آپ نے ؟ اب نہ کریں جی ۔پاکستان کو جینے دیں اسکی روح پر گہرے زخم لگے ہوئے ہیں جن سے خون رِ س رہا ہے کسی کو تو ان پر مرہم رکھنے دیں ۔ جناب ِ عالیٰ ۔پاکستان میں صرف ایک کام ہے کہ جب کوئی چاہے جتھوں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو جائے ۔ اب ہر گز ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ دنیا ہمارے خلاف بر سرِ پیکار ہے اور ہم پاکستان میں ہر وقت ڈگڈگی بجا کر تماشہ دکھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی قوم کا مذاق نہ اُڑائیں انھیں زندہ رہنے دیں ۔
سیاست کے نام پر پاکستان کے اداروں پر پتھر پھینکنا بند کر دیں کیا پاکستان اب اس کا متحمل ہو سکتا ہے جو پاکستان کے ساتھ کھیل تماشہ ہو رہا ہے ہر گز نہیں۔ اب نہیں۔ بہت ہو چکا مہر بانی فرمائیں۔ حکومت وقت کو بلاشک و شبہ اچھی اصلاحات لانی چاہئیں اور غور کرنا چاہیے کہ کون کونسی وہ غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے آج اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ میں ہمیشہ سے اس بات پر قائل ہوں کہ حکومتی غلطیوں کا سب سے زیادہ فائدہ اپوزیشن اور سابقہ حکمرانوں کو ہوگا ۔ اب پاکستان کے اداروں کو مضبوط کرنے کا وقت ہے پاکستان کو اس کی منزل تک لے جانے کیلئے قانون کی حکمرانی کے ذریعے سستا اور فوری انصاف سب کیلئے Without any discrimination ضروری ہے ۔
اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔ "اور لوگوں پر احسان کرو جیسے اللہ نے تم پر احسان کیا ہے "
حکومتی وزیروں مشیروں کو مکمل توجہ اپنے کام پر دینی چاہیے اسی کا پھل انھیں ملے گا کہیں ایسا نہ ہوکہ سیاستدانوں کی آپس کی جنگ میں مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پسے عوام کا اعتماد سب پر سے ہی ختم ہو جائے اور لوگ مجبوری میں یہ فیصلہ کرلیں کہ "یہ سب ایک جیسے ہیں "۔ بحیثیت سیاسی کارکن میں نے ملک بدری سے لیکر پیپلز پارٹی حکومت اور جنا ب پرویز مشرف صاحب کی حکومت میں جیلیں اور پولیس ٹارچر برداشت کیا ہے۔ یہ پیچارے سیاسی کارکن کس حال میں زندہ رہ کر نعرے لگاتے ہیں مجھے اس کا علم ہے ۔ جن ورکرز کے سر پر یہ لانگ مارچ کی دھمکیاں دیتے ہیں انکی حیثیت درخت کے ان پتوں سے زیادہ نہیں ہے جو خزاں آنے پر جھڑ جاتے ہیں اور وہ درخت زیادہ ہرا بھرا ہوتا ہے ۔ میں بحیثیت سیاسی کارکن اپنے سب سیاسی کارکنوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ کسی لیڈر کے کہنے سے بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں ۔ بالآخر کارکن دربدر ہی ہوتے ہیں اور ان کی جگہ لینڈمافیازاور کرپٹ لوگ لے لیتے ہیں ۔ چاہے سابقہ حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت کے ورکرز بھی کبھی کبھی منہ چھپاتے نظر آتے ہیں ۔
کیا لالک جان چوک اور ڈی چوک والے زیادہ تر ورکرز کو کسی نے کبھی بلایا ہوگا ؟ میرے خیال میں وہ بیچارے ابھی تک منتظر ہی ہیں ۔ اور ان کی جگہ باہر سے آئے بڑے بڑے لوگوں نے لے لی ہے ۔ کبھی نہ کبھی اس کا حساب تو ہوگا نا۔
میں ہمیشہ یہی سوچتا ہوں کہ :
خدا نے کیوں درد آشنا دیا ہے مجھے
اس آگہی نے تو پاگل بنادیا ہے مجھے
تمہی کو یاد نہ کرتا تو اور کیا کرتا
تمہارے بعد سبھی نے بھلا دیا ہے مجھے
صعوبتوں میں سفر کی کبھی جو نیند آئی
میرے بدن کی تھکن نے اُٹھا دیا ہے مجھے
میں وہ چراغ ہوں جو آندھیوں میں روشن تھا
خود اپنے گھر کی ہوا نے بجھا دیا ہے مجھے
بس ایک تحفہ افلاس کے سوا ساقی
مشقتوں نے میری اور کیا دیا ہے مجھے
پاکستان زندہ باد‘ پاک فوج پائیدہ باد
٭…٭…٭