’’سچ تو یہ ہے‘‘
مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح‘ دو قومی نظریہ اورنظریۂ پاکستان کیخلاف بعض دریدہ دہنوں کا مجہول پراپیگنڈہ محض شوق فضول نہیں بلکہ ایک منظم و مذموم ایجنڈے کے تحت آج پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیری اور شدومد کے ساتھ نظریہ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کو متنازعہ بنانے اور بالخصوص قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ نام نہاد دانشوروں کے روپ میں ایسے لبرلز کو جنہیں بانی ٔپاکستان کے مسلمہ لقب قائداعظم سے بھی چڑ ہے اور وہ انہیں قائداعظم کے بجائے محض جناح کہہ کر انکی سیاست و سیادت کا تمسخر اڑانے اور ان کا سیاسی قدکاٹھ گاندھی اور نہرو سے نیچا دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آتے ہیں‘ تاریخ کی سچائیوں کے ساتھ اور ٹھوس حقائق و دلائل کے ساتھ مسکت جواب دینے کی جو ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی‘ وہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ہمارے معتبر دانشور ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی نئی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے ذریعے پوری کردی ہے۔ قلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستار عاصم پچھلے دنوں میری شاعری کی کتاب ’’کلام سعید‘‘ کی ڈمی لے کر میرے پاس تشریف لائے تو اپنے ہاتھ میں تھامی ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ بھی مجھے مرحمت فرما دی۔ اس کتاب کا عنوان دیکھتے ہی قیام پاکستان کے بعد کی نئی تلخ حقیقتیں اور سچائیاں میرے دماغ میں گھومنے اور کچوکے لگانے لگیں۔ ان حقائق و تصورات پر بھی ضرور بات ہوگی چاہے برسبیل تذکرہ ہی سہی تاہم پہلے مجھے یہ اعتراف کرنا ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود نے تحریک پاکستان‘ قیام پاکستان اور بانیانِ پاکستان کیخلاف مخصوص ایجنڈے والے لبرلز کی طرف سے جاری پراپیگنڈہ کا بروقت اور مؤثر توڑ کیا ہے اور تاریخ قیام پاکستان دانستاً خلط ملط کرنیوالے دریدہ دہنوں کی حقائق کے ہتھیاروں اور الفاظ کے نشتروں کے ذریعے خوب ٹھکائی اور انکے پراگندہ ذہنوں کی صفائی کی ہے۔ اس ناطے سے انکی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ محض شیلفوں کی زینت نہیں بننی چاہیے بلکہ اسے بالخصوص ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں محفوظ کرنے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔
آج تک مادر پدر آزاد کلچر کی ترغیب والی اور بالخصوص ہندو اور دوسرے لادین کلچر کو ہمارے سکولوں کے معصوم بچوں کے ناپختہ ذہنوں میں ٹھونسنے کے تیربہدف نسخے کے طور پر استعمال ہونیوالی کتب کے ہمارے درسی کتب کا حصہ بنائے جانے کے بہت چرچے ہیں جس کیلئے ایک غیرملکی ادارے سے وصول ہونیوالے اربوں روپے کے فنڈز کی بندربانٹ اور چند مخصوص ناشرین کتب کو نوازنے کی بعض مصدقہ کہانیاں بھی زیرگردش ہیں جبکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور اس پر مبنی نظریۂ پاکستان کو الٹانے کی گھنائونی سازش پر مبنی ایسی کتب پر پابندی عائد کرنے کی پاداش میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی کو رات کی تاریکی میں انکے منصب سے فارغ کردیا گیا جس کا مفصل تذکرہ میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں کرچکا ہوں۔ ایسے پرآشوب ماحول میں ہماری نئی نسل کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے وابستہ اور قیام پاکستان کے مقاصد اور اس کیلئے بانیانِ پاکستان کے فلسفہ و حکمت عملی سے متعلق حقائق سے باخبر رکھنا ضروری ہے تاکہ ہمارے مستقبل کے معماروں کے کچے اذہان میں نقب لگانے والے بدطینت عناصر کی سازشیں ناکام بنائی جا سکیں۔ اس کیلئے ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کا ہر تعلیمی ادارے کی لائبریری اور اسی طرح ملک کی تمام پبلک لائبریریوں میں موجود ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ کتاب بالخصوص قائداعظم کی حیات اور انکی سیاست و سیادت کے حوالے سے ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس میں بالخصوص اس زہریلے پراپیگنڈے کا توڑ کیا گیا ہے کہ پاکستان کا قیام‘ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہرگز عمل میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اس کتاب میں 1192ء میں شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے مابین ہونیوالی تراوڑی جنگ کا حوالہ دیکر جنگ سے پہلے شہاب الدین غوری کی جانب سے پرتھوی راج کو بھجوائے گئے خط کو تحریک قیام پاکستان کا آغاز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ خط درحقیقت پاکستان کی بنیاد کی پہلی اینٹ تھی۔ اس خط میں غوری نے یہ کہہ کر پرتھوی راج کو صلح کی پیشکش کی کہ پنجاب‘ سندھ اور سرحد کے علاقے ہمارے حوالے کر دو ورنہ جنگ کیلئے تیار ہو جائو۔ بلوچستان کا انہوں نے اس لئے ذکر نہیں کیا کہ وہاں پہلے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ پرتھوی نے یہ پیشکش قبول نہ کی اور شہاب الدین غوری کے ہاتھوں تراوڑی کے میدان میں عبرت ناک شکست کھائی۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ شہاب الدین غوری نے پنجاب‘ سندھ اور سرحد کے مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے سے ہی انہیں اپنے پاس رکھنے کا تقاضا کیا تھا جو درحقیقت مسلمانوں کیلئے بطور قوم الگ خطے کا تقاضا تھا اور پھر یہی تقاضا قیام پاکستان کی تحریک کی بنیاد بنا۔
قائداعظم نے تو ایک انگریز صحافی کو انٹرویو کے دوران یہ کہہ کر پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے بارے میں اپنے ذہن میں موجود تصور مکمل اجاگر کر دیا تھا کہ پاکستان تو اس وقت ہی قائم ہو گیا تھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ اسی طرح انہوں نے قرآن مجید کو پاکستان کا آئین قرار دیکر بھی قیام پاکستان کے ذریعے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کا نقشہ ہی پیش کیا تھا۔ انکی 11؍ اگست 1947ء کی تقریر کی بنیاد پر انہیں سیکولر قرار دینے والے عناصر کا یقیناً اپنا ایجنڈا ہے۔ اگر قائداعظم نے اس تقریر کے ذریعے پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ اور مذہبی آزادی حاصل ہونے کا یقین دلایا تو یہ بھی پاکستان میں اسلامی اصولوں کی عملداری کا ہی یقین تھا۔ اگر قائداعظم برصغیر کی مسلمان اقلیتوں کے قائد کی حیثیت سے انکے حقوق اور مذہبی آزادیوں کا تقاضا کرتے رہے تو پاکستان میں وہ اقلیتوں کے حقوق سے بھلا انحراف کرسکتے تھے؟ دین اسلام تو خود غیرمسلموں کے حقوق اور انکی مذہبی آزادیوں کا محافظ ہے چنانچہ قائداعظم بھی اسلام کے زریں اصولوں کے تحت ہی پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اس بارے میں بھی نام نہاد دانشوروں کے ذہنوں میں موجود گند حقائق کے جھاڑو کے ذریعے صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ریڈکلف ایوارڈ کو قبول کرنے اور قائداعظم کی علالت کے حوالے سے مخصوص لابی کے پراپیگنڈے کا توڑ بھی ڈاکٹر صفدر محمود نے ٹھوس ثبوتوں‘ شواہد اور گواہیوں کے ساتھ کیا ہے۔
میرا تجسس تو قائداعظم کے انتقال کے بعد قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں ہے جسے ’’ہذا من فضل ربی‘‘ کے لیبل کے نیجے اشرافیائوں کا پاکستان بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی شکل میں اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کے تصور و مقاصد کو گہنانے والا انگریز اور ہندو کا ٹوڈی یہ استحصالی طبقہ کیسے وجود میں آیا اور کس طرح اشرافیہ کا لیبل لگا کر اس مفاد پرست اور سازشی طبقے نے اسلامی‘ سماجی اور اقتصادی انصاف والے نظام کو پرے دھکیل کر اقتداری لوٹ کھسوٹ والے نظام کو مسلط کیا اور بے وسیلہ عوام الناس کو راندۂ درگاہ بنایا‘ یہ سچ بھی تو سامنے لایا جانا چاہیے۔ تو جناب! سچ تو یہ ہے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد ہمارے سیاسی حکومتی نظام پر انگریزوں کے کتے نہلانے اور انکی خدمت گزاری کے عوض ان سے گھوڑی پال سکیموں اور انکی دوسری نوازشات مربع ہا مربع اور میل ہا میل اراضی کی صورت میں حاصل کرنے اور قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں مبینہ بھاری جائیدادوں کے جعلی کلیم داخل کراکے پاکستان میں وسیع و عریض متروکہ وقف املاک پر قابض ہونیوالے مفاد پرستوں نے ہی قائداعظم کے پاکستان کا حلیہ بگاڑا ہے اور قائداعظم کے تصور والے اسلامی فلاحی جمہوری نظام کے تصور کو پنپنے نہیں دیا۔ اور حضور! سچ تو یہ ہے کہ انگریز اور ہندو کا ٹوڈی اور جعلی کلیموںکے ذریعے ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا خناس پالنے والا یہی طبقہ کسی نہ کسی ہیرا پھیری سے اور کسی نہ کسی شکل میں ہر دوراقتدار میں حکمران طبقات میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لیتا‘ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں کرتا اور قومی دولت و وسائل کی آزادانہ لوٹ مار کرتا رہا ہے۔ اور بھائی صاحب! سچ تو یہ ہے کہ آج بھی انہی استحصالی طبقات کی آل اولاد اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور قائداعظم کے پاکستان کو پنپنے نہیں دے رہی۔ جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب۔ کیا آج اس سچ کو بے نقاب کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ تلخ اور کڑوے سچ کے اظہار کے بھی آج راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہی کوئی چارہ کریں اور سہیل وڑائچ کے اختیار کردہ راستے سے ہٹ کر سچ بیانی کا کوئی راستہ سجھا دیں ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔
٭…٭…٭