افغان مصالحتی عمل
اب جبکہ افغان مصالحتی عمل کا دوسرا دور شروع ہو چکا ہے اور دوحہ میں ’’انٹرا افغان ڈائیلاگ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تو امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے طالبان رہنمائوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس تاریخی موقعہ سے فائدہ اُٹھائیں اور اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ کر لیں۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ متحارب فریق اس سے فائدہ اُٹھا پاتے ہیں یا نہیں۔ یہ امریکی صدر ٹرمپ کا (SWAN SONG) لگتا ہے۔ الیکشن جیتنے کی سرتوڑ کوشش ظاہر ہے کہ پومپیو کی نوکری بھی ٹرمپ کی کامیابی سے جڑی ہوئی ہے۔ امریکی صدارت کا دورانیہ چار سال کا ہوتا ہے۔ ٹرمپ لاکھ سیماب صفت سہی ، لیکن دیوانہ بکار خویش ہوشیار ہوا کرتا ہے۔ وہ امن مذاکرات کو کھینچ کھانچ کر اس مقام پر لے آیا ہے کہ کامیاب مذاکرات اس کے الیکشن میں ممد اور معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ امریکی عوام ایک طویل صبر آزما، مہنگی اور بے مقصد جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ یقیناً امن کی ہر کوشش کا خیرمقدم کریں گے۔ ہندو بنیے کی طرح وہ بھی اپنی جیب کا خیال رکھتے ہیں۔ 1000 ارب ڈالر کی خطیر رقم جو جنگ میں جھونکی گئی ہے وہ ان کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ ہو سکتی تھی۔ ویسے حیرانی اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ امریکہ بہادر کو پاکستان کے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے ایک ارب ڈالر بھی دینا ہو تو سارا سال ترساتا ہے۔ (وہ امداد بھی اب بند ہو چکی ہے) لیکن افغانستان میں رقم پانی کی طرح بہاتا ہے ویسے ٹرمپ کی کذب بیانیاں اب ضرب المثل بنتی جا رہی ہیں۔ ایمانداری کا ہر امریکی صدر پرچارک رہا ہے لیکن موصوف نے اپنے آپ کو اس ’’شجر ممنوعہ‘‘ سے ہمیشہ ایک شریفانہ فاصلے پر رکھا ہے۔ بعض لوگ مجبوراً جھوٹ بولتے ہیں۔ کچھ مصلحتاً اسکے مرتکب ہوتے ہیں۔
؎اور وہ حیرت دروغِ مصلحت آمیز پر (اقبال)
کچھ عادتاً کذب بیانی کرتے ہیں (COMPULSIVE LIARS) موصوف نے کہا نومبر کو سارے امریکہ کو COVID-19 ویکسین کا تحفہ دیا جائے گا۔ اس کلیم کو سارے میڈیکل ماہرین نے (FANTASY) قرار دیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک مرتبہ الیکشن جیت جائو ۔ بعد میں اس ’’یو۔ ٹرن یا ’’ابائوٹ ٹرن‘‘ پر کس نے اس کا دامن پکڑنا ہے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس محاوراتی کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ، پرانی کہاوت ہے۔
(Those who take up the sword, shall be perished by sword)
اس کے باوجود تاریخ مُہم جُوئوں اور جنگ و جدال سے بھری پڑی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ افغانستان میں جو حملہ آور بھی آیا ہے وہ ذلیل و رسوا ہو کر لوٹا ہے۔ایک وقت تھاکہ برطانوی ایمپائر پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ امریکہ ، ہندوستان جیسے ملک انکی کالونیاں تھیں، ان کا خیال تھاکہ افغانستان تو ایک جھٹکا بھی برداشت نہ کر پائے گا۔ داخل تو ہو گئے لیکن واپسی کے سب راستے مسدود ہو گئے۔ ایک ڈاکٹر William BRYDEN بڑی مشکل سے جان بچا کر لوٹا۔ درحقیقت افغانوں نے اسے نشانِ عبرت بنا کر بھیجا تھا۔ ایک مریل سے خچر پر جب وہ برٹش آئوٹ پوسٹ کے قریب پہنچا تو انہوں نے سمجھا ایلچی نوید مسرت لایا ہے۔ قریب آیا تو اس نے انکشاف کیا کہ تمام فوج نیست و نابود ہو گئی ہے۔ اس کا اپنا جسم زخموں سے چُور تھا۔ بُھوکا، پیاسا ، پستول گم ہو گیا تھا۔ تلوار مُڑی ہوئی تھی۔ خچر تک سفرکی صعوبتیں برداشت نہ کر سکا اور شام کو مر گیا۔ ڈاکٹر کو داعی اجل کو لبیک کہنے میں کچھ عرصہ لگا۔ جتنا ذلیل وہ افغانستان میں ہوا تھا اس سے زیادہ رسوا 1857ء کی جنگ آزادی (یا غدر) میں ہوا۔ لکھنو میں ایک بار پھر شدید زخمی ہوا۔ 1873ء میں سکاٹ لینڈ میں طبعی موت مرا۔
روس کی فوجی مہم بھی ناکام ہوئی۔ افغانستان نے تو کیا فتح ہونا تھا خود کمیونسٹ ایمپائر تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ روسیوں کی آمد بذات خود مقصد نہ تھی بلکہ حصولِ مقصد تھی۔ زارا انِ روس نے گرم پانیوں تک پہنچنے کا جو خواب دیکھا تھا یہ حملہ اسی کا شاخسانہ تھا۔ یہ بتدریج گوادر تک پہنچنا چاہتے تھے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے اسلحہ دیا لیکن لڑے تو افغان ہی تھے۔ اس تلوار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک اُسے چلانے والانہ ہو۔ پاکستان کا بھی اُس فتح میں نمایاں کردار تھا۔ کیونکہ ہمارا ملک بھی روس کے عزائم سے بخوبی واقف تھا۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے بھی تاریخی غلطی کی۔ ویسے کچھ قصور مُلا عمر کا بھی تھا۔ ہزاروں آدمیوں کی موت نے بُش کو غصے سے نیم پاگل کر دیا تھا۔
اس نے افغان حکومت سے اسامہ بن لادن مانگا۔ اسے امریکہ کے حوالے کرنا افغان روایات کے خلاف تھا۔ دوسرا مطالبہ مانا جا سکتا تھا۔ اسے ملک بدر کر دیا جائے۔ اس طرح لاکھوں لوگ مرنے سے بچ جاتے ۔ مُلا عمر معزول ہو کر گمنام جگہ پر کسمپرسی کی حالت میں مرا ۔ ……… (جاری)