آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات میں عسکری قیادت نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ فوج کا ملک کے سیاسی عمل میں کوئی کردار نہیں ہے نہ ہی نیب، انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات میں کوئی عمل دخل ہے۔ ضرورت پڑنے پر فوج ہمیشہ سول انتظامیہ کی مدد کرتی رہے گی۔ یہ بیانیہ اور نقطہ نظر ملک کے سیاست دانوں کو باہمی طور پر ناصرف پھیلانا چاہیے بلکہ ملک دشمنوں کو ایسے اقدامات اور اتحاد سے اندرونی طور پر واضح پیغام دینا چاہیے۔ بدقسمتی سے سیاست دان اس اہم کام میں بھی ناکام رہے ہیں اور فوج کو خود سے یہ کام کرنا پڑا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کام سیاست دانوں کا ہے لیکن یہ ذمہ داری بھی فوج ہی نبھا رہی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے فوج کو سب سے آسان ہدف بنا رکھا ہے۔ اپنے قرضوں، بیڈ گورننس اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ملک میں ایک ہی منظم ادارہ بچا ہے اور بیرونی دشمن ہمارے اندر بیٹھے دوستوں کے ذریعے اس ادارے کی ساکھ خراب کرنے کے لیے مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناصرف ملکی دفاع بلکہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے بھی نیک نیتی اور اتحاد کے ساتھ کام کریں۔ فوج مضبوط ہو گی تو دفاع مضبوط ہو گا، معیشت مضبوط ہو گی تو مسائل کم ہونگے، ملک میں خوشحالی آئے گی۔ اس لیے ہر ناکامی میں فوج کو شامل کرنے کے بجائے کارکردگی پر توجہ دیں موجودہ حکومت کی بھی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ بیان بازی سے باہر نکلے اور عملی اقدامات کرے۔ یہ ملاقات صرف سابق ہی نہیں موجودہ حکومت کی بھی ناکامی ہے۔
حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اپوزیشن کے بیانیے کا منطق اور دلیل کے ساتھ جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ترجمانوں اور وزراء کو پارٹی بیانیے کے بارے میں ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی ترجمانوں اے پی سی کے فیصلے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وہاں بیٹھے افراد کے ذاتی مقاصد سے قوم آگاہ ہے۔ بات تو ٹھیک ہے قوم آگاہ ہے کہ اپوزیشن مفادات کی سیاست کرتی ہے اور اپوزیشن کا واحد مقصد اقتدار میں واپسی ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ قومی سلامتی کے اداروں کو بھی نہیں بخش رہے۔ یہ باتیں زبان زدعام ہیں کہ اپوزیشن اور بالخصوص میاں نواز شریف کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس میں افواج پاکستان کو نشانہ بنانے کا مقصد کسی اور کو خوش کرنا تھا۔ جنہیں ایسے بیانات سے وہ ماضی میں خوش کرتے آئے ہیں ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت اور اداروں کے خلاف بیان بازی بھارتی لابی کو خوش کرنے کے لیے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ فیصلہ ہوا ہے کہ وفاقی وزراء شبلی فراز، فواد چودھری اور اسد عمر آل پارٹیز کے بیانیے پر حکومت کا نقطہ نظر پیش کریں گے۔ وزیراعظم نے وفاقی وزراء اور پارٹی ترجمانوں کو حکومتی نقطہ نظر سے آگاہ کیا ہے۔
اپوزیشن کو جواب دینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سب سے اہم نقطہ منظق اور دلیل کے ساتھ حکومتی نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھنے کا ہے۔ یہ اچھی سوچ ہے اور وزیراعظم عمران خان خود بھی گذشتہ کئی ماہ سے خود کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی غیر ضروری بیانات سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہوئے منطق اور دلائل سے بھرپور گفتگو کی طرف بڑھ رہے ہیں یہی فلسفہ انہوں نے اپنے پاتٹی ترجمانوں اور وفاقی وزراء کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہی حقیقت اور وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ آپ عوام کو سبز باغ دکھائیں اور وہ دیکھ کر خوش ہوتے رہیں۔ وقت بدل چکا ہے لوگ دلائل سے قائل ہوتے ہیں۔ غیر ضروری بیانات سے کسی کو خوش نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں حقائق پر مبنی گفتگو اور پراثر بیانیہ ہی پذیرائی حاصل کر سکتا ہے۔ ہر وقت گالم گلوچ، برا بھلا، لعن طعن کے طریقے بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ عوام اس طرز عمل سے اکتا چکے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے گالم گلوچ برگیڈ نے ماحول اتنا آلودہ کر دیا ہے کہ کوئی باشعور شخص اس طرف توجہ بھی نہیں دینا چاہتا اگر آپ بے معنی باتوں سے کسی کو مائل کرنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا چلانے والوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ انہوں نے ہر حال میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کام کرنا ہے اور قوم کو ایسے فضول ٹرینڈز میں الجھانا ہے جس سے نفرت، بدامنی اور انتشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان کا ان حالات میں منطق اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ وزیراعظم کی کابینہ کو بھی بدلتے ہوئے عمران خان سے سبق سیکھنا چاہیے اگر وزیراعظم اس حقیقت تک پہنچ چکے ہیں کہ دلائل کے بغیر گفتگو کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تو ان کی کابینہ، وزراء اور ترجمانوں کو بھی اسی فارمولے پر عمل کرنا چاہیے۔ وزیراعظم اس فیصلے پر قائم رہیں اور اپنے وزراء اور ترجمانوں کو بھی اس کا پابند بنائیں، شائستہ گفتگو کریں اور اس کا رواج ڈالیں، دلائل سے گفتگو کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور گالم گلوچ، فضول گفتگو کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کر کے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ کیونکہ اس انداز میں قوم کی تربیت ہی نہیں کی گئی۔ قوم کو ایسی تربیت اقر رہنمائی کی ضرورت ہے۔ نسلوں کو اخلاقیات کا سبق پڑھانے اور خود اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ گفتگو کی حد تک ایسے فیصلے اور بات چیت کے طور طریقے اور انداز بدلنے کے لیے ہمیں ماضی کے بدتہذیب طریقوں سے جان چھڑانا ہو گی۔
لیکن اس دور پرفتن میں کہ جب حکومت کو دو سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور ان کی انڈر سکسٹین اور انڈر نائینٹین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے عوام سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ اس وقت وہ کون سی منطق اور دلیل ڈھونڈ کر لائیں گے۔ کون سا بیانیہ عوام کے سامنے رکھیں گے جسے عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہو اور اسے پذیرائی مل سکے۔ زمینی حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بیانیہ کہ اپوزیشن یا بالخصوص میاں نواز شریف کی گفتگو اداروں کے خلاف تھی یا پھر ان کے بیانات بھارتی لابی کو خوش کرنے کے لیے ہیں یہ تو پرانی باتیں ہیں میاں نواز شریف کی بھارت نوازی کی داستانیں زبان زد عام ہیں وہ ان کا طرز سیاست بھی ہے اور ان کی سیاست کا محور بھی ہے یہی ان کی پالیسی بھی ہے۔ ان حالات میں میاں نواز شریف یا اپوزیشن کے بیانیے کو صرف اس ایک دلیل کے ذریعے رد کرنا ممکن نہیں ہو گا نا ہی عوامی سطح پر اس ایک نقطے کی وجہ سے اپوزیشن کے لیے مشکلات کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کی میڈیا ٹیم تو اتنی شاندار ہے کہ ان کے اپنے بیانات ہی حکومت کے گلے پڑے رہتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے کا فن ہی نہیں آتا جیسے حکومت نے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے آٹے کی قیمتوں کو قابو کرنے کی کوشش کی ویسے ہی انڈر 19 ترجمانوں کی ٹیم کا رویہ میڈیا کے ساتھ ہے۔ زیادتی کی خبریں مسلسل چل رہی ہیں اور کسی کو ہوش ہی نہیں ہے کہ ان خبروں سے ملک میں کس حد تک عدم تحفظ کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ لاہور میں ہونے والے زیادتی کے واقعے کے بعد خواتین میں خوف اور عدم تحفظ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ خواتین نے اکیلے گھر سے نکلنا بند کر دیا ہے۔ حکومتی ترجمان بیان بازی کے چکر میں معاملے کے سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ عوام کی تو تربیت ہوئی ہی نہیں ہے یہ ذمہ داری تو حکومت کی ہے۔ عوام کی تربیت کرے۔ عوام کے پاس تو سوچنے کا وقت نہیں اور حکمرانوں کے پاس وقت ہے تو انہیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوام نے تو لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد یہ ثابت کر دیا یے کہ انہوں نے کسی بھی قسم کے حالات سے کچھ سیکھنا نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد کوئی مری کی سیر کر رہا ہے، کوئی شمالی علاقہ جات گھوم پھر رہا ہے۔ سوات جانے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ کورونا سے دبے اور معاشی طور پر کمزور افراد نے بچت کے بچائے سب کچھ عیاشیوں پر اڑا دیا ہے۔ دوسری طرف کروڑوں افراد ایسے بھی ہیں جن کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو چکی ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے سانس لینا مشکل کر دیا ہے تو بیروزگاری کی وجہ سے ہر دوسرا شخص ذہنی تناؤ کا شکارہے۔
حکومت یاد رکھے کہ ہر قسم کے حالات میں ایک ہی منطق اور دلیل سب سے جلدی اور آسانی سے سمجھ آتی ہے اور وہ یہ عام آدمی کو جینے کا حق دیا جائے عام آدمی کے لیے زندگی کو آسان بنایا جائے۔ اگر عام آدمی کی زندگی میں آسانی نہیں ہو گی تو کوئی منطق اور دلیل قابل قبول نہیں ہو گی۔ جب لوگوں کی زندگی مشکل ہوتی چلی جائے گی تو عوام کو کسی حکومت پر اعتماد نہیں ہو سکتا۔ آج کی تاریخ میں بھی اگر ننانوے فیصد عوام یہ سمجھتے بھی ہوں کہ وزیراعظم کی نیت یا ان کی فکر اور سوچ پر کوئی شک نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی حکومتی فیصلوں کی تائید کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں اپنی زندگی گذارنے کے لیے جس جدوجہد سے گذرنا پڑ رہا ہے وہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ بدقسمتی سے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ریاست مدد کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
مشکل ہوتی زندگی میں مزید مشکلات کرونا نے پیدا کی ہیں۔ بیروزگاری اور غربت بڑھ رہی ہو تو عام آدمی کے لیے صرف ایک ہی بیانیہ کشش رکھتا ہے اور وہ بیانیہ آسان ہوتی زندگی ہے۔ اس کے سوا کسی بیانیے میں عوام کے لیے کوئی کشش نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے کرونا کے دنوں میں احساس پروگرام کے ذریعے چند ماہ عوام کو بارہ ہزار روپے ماہانہ مالی مدد فراہم کی ہے۔ حکومتی وزراء خود بتائیں کہ مہنگائی کے اس دور میں کیا اتنے پیسوں میں بارہ گھنٹے بھی گذر سکتے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنائیں اگر حکومت اس میں ناکام رہتی ہے تو حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ صرف آٹا اور چینی کا نہیں ہے یہاں بجلی گیس پانی گھی سبزیاں پھل اور صحت سمیت کچھ بھی نہیں مل رہا۔ لوگوں میں آزاد فضاؤں کی اہمیت اور سانس لیتے ہوئے سکون کا احساس فراہم نہیں کرتے ہیں تو کوئی منطق یا دلیل حکومت پر اعتماد بحال نہیں کر سکتی۔
جماعت اسلامی کو آل پارٹیز کانفرنس میں نہ بلانا اس چیز کا اظہار ہے کہ اے پی سی میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا ملک میں سیاسی روایات کا فروغ یا عوام کا فائدہ ہرگز نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی سیاست صرف اور صرف حلوے کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اصولی طور پر یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ وہ قومی معاملات پر اپنی جماعت کے نقطہ نظر اور منشور کے مطابق موقف اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ جماعت کے اکابرین سمجھتے ہیں کہ ماضی میں اقتدار کا حصہ بنتے ہوئے یا پھر متحدہ مجلس عمل میں رہتے ہوئے بعض ایسے فیصلے کیے گئے جو جماعت اسلامی کے نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ اس اے پی سی میں جماعت کی عدم شرکت نے متحدہ مجلس عمل کا وجود بھی تقریبآ ختم کر دیا ہے کیونکہ دو ہزار دو کے بعد کی سیاست میں متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کا کردار اہم رہا ہے لیکن اب جماعت کے اکابرین سمجھتے ہیں کہ اس عرصے میں یا اس اتحاد میں مولانا فضل الرحمن کا کردار قومی مفاد یا ملکی تعمیر و ترقی کے بجائے کچھ اور رہا ہے اس سوچ کے بعد دونوں کا دوبارہ اکٹھا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جماعت اسلامی کا اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے سیاست کرنا ذرا مشکل فیصلہ ہے لیکن یہیں سے جماعت اسلامی کو نئی زندگی بھی مل سکتی ہے۔ جماعت اسلامی اگر پریس ریلیز یا ویڈیو میسجز سے باہر نکل آئے تو دوبارہ ملکی سطح کی سیاست میں ماضی والا مقام حاصل کر سکتی ہے۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے کا دور سب کو یاد ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بھی ہیں اور ان کا نیٹ ورک بھی بہت منظم ہے سو اسے زمین پر رہتے ہوئے عملی طور پر استعمال کرنے اور منصورہ کی حدود سے باہر نکلنے کے لیے فیصلے کرنا ہونگے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق جیسے ایماندار، سادہ اور مخلص لوگ ہماری ساست میں کم کم ہی نظر آتے ہیں یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے۔ واضح پالیسی کے ساتھ ایمانداری کے اس پیغام کو گلی گلی پھیلائیں اور میدان میں نکلیں۔ اللہ سے مدد مانگیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام اور اللہ کی مخلوق کی مدد کے لیے کام کریں گے تو کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ جماعت اسلامی پر قوم کی مذہبی و سیاسی تربیت کی ذمہ داری دیگر سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جماعت نے مشکل فیصلہ ضرور کیا ہے لیکن اسی مشکل سے قوم کے لیے آسانی بھی نکل سکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024