پانچ اگست سے بائیس ستمبر تک ہر دن کشمیریوں کے لیے تکلیف، اذیت اور پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء ، ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں، مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے۔ پانچ اگست سے اب تک جامع مسجد سری نگر میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جا سکی، اسی دوران محرم الحرام میں عاشورہ کے جلوسوں پر بھی ظلم و بربریت کی نئی تاریخ لکھی ہے۔ علماء کرام کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ مساجد کے امام گرفتار کیے جا رہے ہیں، ان کے اثاثہ جات کی چھان بین ہو رہی ہے۔جان بچانے والی ادویات کی قلت سے زندگی کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے کشمیریوں کی زندگی بدتر ہو گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں بھارتی حکومت نے ایک نیا کام شروع کیا ہے اب بچوں کو غائب کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ گیارہ سال سے کم عمر بچے مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی گرفتاریوں کے پیش نظر بھارتی سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر ہوئی ہے درخواست گذار نے موقف اختیار کیا ہے بعض گرفتار ہونے والے بچوں کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں۔ زیر حراست بچوں کی اموات کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ درخواست گذار نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر عدالت سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے گرفتار بچوں کی رہائی اور درست تعداد بتانے کی درخواست کی ہے۔
یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ان اقدامات کے بعد اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جس نسل کشی کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے وہ اس لاک ڈاؤن میں شروع ہو چکی ہے۔ ایک طرف طبی سہولیات کی عدم دستیابی سے اموات ہو رہی ہیں، بدترین تشدد کی وجہ سے لوگوں کی زندگی ختم ہو رہی ہے۔ جوانوں کو غائب کیا جا رہا تھا تو اب بچوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یعنی بھارتی حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی حکمت عملی کے تحت ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے مسلمانوں کو ختم کیا جا سکے۔ آبادی کا توازن بگاڑا جا سکے اور مقبوضہ وادی میں اپنے لیے سازگار حالات پیدا کیے جا سکیں۔ دنیا کی تاریخ میں دس سال سے کم عمر بچوں کی مذہبی بنیادوں پر گرفتاری کی کوئی مثال شاید ہی ملتی ہو لیکن مقبوضہ کشمیر میں یہ ظلم بھی ہو رہا ہے۔ زیر حراست بچوں پر ہونے والے مظالم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جہاں سرعام تشدد کیا جائے، خواتین کی عصمت دری کی جائے، مساجد کو بند کر دیا جائے، ماتمی جلوسوں پر دھاوا بولا جائے وہاں بچے گرفتار کیے جائیں گے تو ان سے اچھے سلوک کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن میں طاقت کے زور پر ظلم کی نئی داستان رقم ہو رہی ہے۔ ان والدین کا حال کیا ہو گا جن کے معصوم بچوں کو بھارتی درندے اٹھا کر لے گئے ہوں گے۔ انسانی حقوق کی اس سے بڑی خلاف ورزی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دس سال یا اس سے بھی کم عمر بچوں پر ظلم شروع کر دیا جائے۔ بھارتی حکومت اس اہم معاملے پر بھی ہمیشہ کی طرح جھوٹ بول کر دنیا سے حقیقت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن معصوم، بیگناہ لاشوں کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کب تک چھپایا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس اہم ترین مسئلے پر حرکت میں آنا چاہیے۔ بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن انا کشی گنگولی کا اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنا اور بھارتی درندوں کے مظالم کو بے نقاب کرنے اور معصوم کشمیریوں کو قابض بھارتی افواج کے ظلم سے بچانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ قابل تحسین ہے انہوں نے کمال جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر شدید ردعمل کے باوجود اب تک بھارتی حکومت نے کرفیو میں نرمی نہیں کی ہے۔ سختیاں برقرار ہیں۔ کشمیر میں زندگی کو معمول پر لانے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ بھی حکم دے چکی ہے تاہم نریندر مودی کی حکومت نے عدالتی احکامات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر پر طاقت کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ معمول بن چکا ہے۔شدت پسندوں سے تعلقات کے الزام میں ہزاروں گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ ان کا قصور بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ بھارت ان کی رائے نہیں بدل سکا تو اس نے فوجی طاقت کے ذریعے آوازوں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ لاک ڈاؤن اور کرفیو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کرفیو اور لاک ڈاؤن میں مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے تمام حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے معصوم بچوں کو نہیں بخشا باقی اس سے انصاف اور نرمی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں بچوں پر ہونے والے مظالم پر مہذب دنیا کوئی قدم اٹھاتی ہے یا پھر یہاں بھی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں گی اور بڑی مارکیٹ والی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے جائیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024