ان کے چہرے پر امید کی شمع روشن تھی ۔ انہوںنے وہی بات کی جو صدر آزاد کشمیر نے کی ہے کہ بھارت اپنے جال میں پھنس چکا ہے اور اب یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مگر کیسے، سنئے ڈاکٹر آصف جاہ کی زبانی جو ایک اللہ والے سے مل کر آئے ہیں۔
ڈاکٹر آصف جاہ کی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے چکوٹھی سیکٹر کے ایک متاثرہ گائوں میں امدادی اشیا تقسیم کی ہیں زخمیوںاور بیماروں کی مرہم پٹی کی ہے اور انہیں ادویہ فراہم کی ہیں جبکہ باقی لوگ فوٹو سیشن کیلئے کنٹرول لائن پر جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف جاہ حج سے آئے۔ اسلام ا ٓباد دفتر میں حاضری لگائی اور دو ٹرک بھر کر چکوٹھی چل دیئے، اب واپس آئے ہیں تو ان سے لائن آف کنٹرول پہ حالیہ وزٹ کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہو ں نے اپنے ایک قریبی دوست کا ذکر کیا۔پروفیسر ڈاکٹر فدا خیبر میڈیکل کالج میں انا ٹومی کے پروفیسر تھے۔ شروع سے ہی اللہ والے ہیں۔ آج کل پشاور میں ان کی خانقاہ ہے جہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ مریدین کی تربیت اور ان کے تزکیہ نفس کا خاص اہتمام کرتے ہیں ۔
بابا جی عرفان الحق دھیمے لہجے اور مزاج کے بزرگ ہیں۔ کئی سال پہلے بابا عرفان الحق کا نام سن رکھا تھا۔ ٹی وی پہ ان کے ایک دو لیکچر بھی سنے تھے۔ سوشل میڈیا پہ بھی ان کے تذکرے تھے۔ وڈیو کلپس بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ جب سے اسلام آباد آنا ہوا، ان سے ملنے کی خواہش تھی۔ پروفیسر احمد رفیق اختر سے تو ملاقات ہو گئی مگرباباجی سے ملاقات کی دیرینہ خواہش تھی۔ ایک دن پی ٹی وی کے سابق سینئر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر امجد بخاری صاحب تشریف لائے۔ ان سے تبادلہ خیالات ہوا۔ بخاری صاحب ہمیشہ اچھے لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ پی ٹی وی کی مدت ملازمت کے دوران ان کا ہزاروں لوگوں سے واسطہ پڑا۔ بخاری صاحب سب سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کئی سال پہلے تعلق بنا۔ انہوں نے کئی دفعہ پی ٹی وی پر بلایا اور ہمارے فلاحی کاموں کے بارے میں پروگرام کروائے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے سوشل ورک کی ترویج کرتے رہتے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
بخاری صاحب نے کہا کہ آپ کو بابا جی عرفان الحق سے ملوانا ہے۔ بخاری صاحب سے سن کر فوراََ کہا کہ ضرور فوری طور پر ملوائیں۔ بخاری صاحب نے فوراََ بابا جی کا فون ملوایا۔ بات کروائی اور جمعرات کو بابا جی سے ملنے کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ کسٹمزکے کولیگ اور عزیز دوست محمد صدیق اور جلیل اختر بھی ہمسفر ہو گئے۔ راستے میں امجد بخاری صاحب اپنے روحانی تجربات اور واقعات سے آگاہ کرتے رہے۔ جہلم میں باباجی کی مسجد اور خانقاہ میںپہنچے جہاں سینکڑوں مرد اور عورتیں ان سے ملنے کی منتظر تھیں۔ ٹوکن 41 چل رہا تھا۔ بابا جی لوگوں سے مل کر ان کے مسائل سن کر پڑھنے کے لیے وظیفہ بتاتے ہیں اور ساتھ ہی بیماری سے بچائو کے لیے غذا اور خوراک کا بتا تے ہیں۔ تین بجے جہلم پہنچ گئے۔ باباجی لوگوں کے مسائل سننے میں مصروف تھے۔ سب سے پہلے لنگر جا کر دال روٹی کھائی۔ چار بجے کے قریب بابا جی سے ملاقات ہوئی۔ بڑی محبت سے ملے۔ بابا جی نے کہا کہ میں نے آپ کے لیے ایک گھنٹہ رکھا تھا۔ آپ لیٹ ہوگئے اس لیے زیادہ وقت نہ دے سکوں گا۔کشمیر کا ذکر ہوا تو بابا جی کہنے لگے کہ اب بہت ہو چکی۔ کشمیریوں پہ عرصہ حیات تنگ ہوئے 45 دن گزر چکے ۔ اب فصل کٹنے کا وقت ہے۔ اب انشاء اللہ کشمیریوں کو آزادی ملے گی بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔ اس وقت ہندو بنیا اور مودی اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ جب کرفیو ختم ہو گا تو وہ کشمیریوں کے ردّ عمل کو کیسے کنٹرول کریں گے۔ اہلِ اللہ کا کہنا ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونگے۔ کشمیریوں کی دیرینہ خواہش پوری ہوگی۔ انہیںآزادی نصیب ہوگی۔ بابا جی کے چہرے پہ اطمینان اور سکون تھا۔ کہہ رہے تھے کہ مجھے صاف لگ رہا ہے کہ اب بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔اس میں دیر اس لیے ہو رہی ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم لوگ اللہ کی طرف رجوع نہیں کر رہے۔ منافقت نہیں چھوڑ رہے۔ اللہ کی مغفرت نہیں مانگ رہے۔اللہ کے واضح احکام کو مان نہیں رہے۔ جتنی جلدی ہم رجوع الی اللہ کریں گے اور اجتماعی توبہ کریں۔ اتنی ہی جلدی اوپر سے فیصلے ہونگے۔ بابا جی عقل و دانش کے موتی بکھیر رہے تھے میں نے پوچھا کوئی نصیحت فرمائیں بابا جی نے کہا کہ تین باتوں کا خیال رکھیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ تنہائی میں اللہ کو یاد کریں۔اس سے لولگائیں۔ اس سے باتیںکریں، تنہائی میں اللہ سے ڈائریکٹ رابطہ ہوتا ہے ۔ تنہائی میں ذہن کی راہیںکھلتی ہیں۔ دل و دماغ روشن ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کم کھائیں۔ کھانے کے لیے نہ جئیں بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائیں۔ حضور اکرمؐ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھیں آبدیدہ ہوگئیں۔ آپ ؐ غارِ حرا جاتے تو اماں خدیجہ ؓ تھوڑے سے ستو اور پانی ساتھ دے دیتیں۔ کئی دن آپ غارِ حرا میں بیٹھے اللہ سے رجوع کرتے۔ اللہ سے باتیں کرتے۔ غوروفکر کرتے۔ دن بھر میں مٹھی بھر ستو اور پانی لیتے اور اسی پر گزارا کرتے۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی۔ تنہائی میں رہنے اور کم کھانے سے آدمی کا ذہن کھلتا ہے۔ علم و دانش کے دریچے واہو تے ہیں۔ بابا جی نے تیسری بات بتائی کہ کم بولیں۔ ضرورت کے وقت بولیں۔ زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کریں۔ فرمایا تنہائی میں اللہ کی یاد، کم کھانے اور کم بولنے کو زندگی کا شعار بنالیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے ذہن کھلتا ہے۔ کیسے اللہ سے تعلق بنتا ہے اور کتنی روحانی منزلیں فٹا فٹ طے ہوتی ہیں۔ جب سے کشمیر کا مسئلہ ہو ا ہے۔ کشمیریوں پہ ظلم و ستم میں اضافہ ہوا ہے۔ اہلِ اللہ کے پاس اکثر جانا ہوتا ہے۔ ان سے تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ ان سب کا کہنا ہے کہ انشاء اللہ اب کشمیریوں کو ضرور آزادی نصیب ہوگی اور بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونگے۔حج کے دوران بھی کشمیری مسلمانوں کے لیے دُعائوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اللہ سے رو رو کر دُعامانگی۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم اور بھارتی بربریت سے نجات کی دُعائیںکیں۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم اور بھارتی بربریت سے نجات کے لیے بیت اللہ کا طواف بھی کیا تھا۔
اگلے دن ہم طورخم میں موجود تھے جہاں وزیراعظم عمران خاں نے طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کسٹم کلئیرنس کا افتتاح کیا۔ عمران خان نے بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں انشاء اللہ جنرل اسمبلی جاکر کشمیر کا مقدمہ دُنیا کے سامنے پیش کرونگا اور دُنیا کو بتائوں گا کہ جنونی مودی نے 80 لاکھ انسانوں کو 45 دن سے مقید کر کے رکھا ہے۔ اگر جنونی مودی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو خطے میں ایٹمی جنگ شروع ہو گی جو پوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس لیے اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی اور پوری دُنیا کو چاہئے کہ وہ بھارت کو مجبورکرے کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں پہ ظلم و ستم بند کرے اور کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار داد وں کے مطابق استصواب رائے کروائے ورنہ دیر ہوگئی تو کشمیری مسلمان تو دکھ تکلیف اٹھا رہے ہیں ۔ مودی کی جلائی ہوئی آگ میں کہیں پوری انسانیت ہی نہ جل جائے۔
پوری قوم کو کشمیریوں کی حمایت میں سینہ سپر ہوجانا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ فی الوقت ذاتی اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے دھرنوں کی بجائے اپنی ساری توانائیاں کشمیریوں کی حمایت میں صرف کر دیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024