پاک بھارت تعلقات اور تنازعہ کشمیر کی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ اکتوبر 1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان لداخ اور ہماچل پردیش میں جنگ چھڑگئی تھی۔ 20 اکتوبر سے نومبر کے تیسرے ہفتے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بھارتی فوج پر تین اطراف سے حملہ کرکے اس کی درگت بنائی ایک ماہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں بھارت کے تین ہزار سے زیادہ افسر اور جوان مارے گئے۔ اس جنگ میں بھارت 43 ہزار مربع کلومیٹر رقبہ بھی گنوا بیٹھا تھا یہ جنگ اس لیے شروع ہوئی کہ بھارت نے جس کے اس وقت چین کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اور ’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگائے جاتے تھے اچانک یہ دعویٰ کر دیا کہ آکسائی چین کا علاقہ اس کا علاقہ ہے کیونکہ آکسائی چین کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر بھارت کا انگ ہے۔ جب کہ چین کا دعویٰ تھا کہ یہ علاقہ اس کے صوبہ سنکیانگ کا حصہ ہے۔
1962ء کی جنگ کے دوران وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیر اور دوسرے علاقوں سے بھی اپنی فوج لداخ کے محاذ پر بھیج دی۔ خطے کی تاریخ کا علم رکھنے والوں کا دعوی ہے کہ چین نے پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان کو غیر رسمی طور پر تجویز دی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جس پر بھارت نے تقسیم ہند کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کررکھا ہے میں پاکستانی فوج داخل کر دے۔
جنرل ایوب خان شاید ایسا کر گزرتے لیکن امریکہ اور برطانیہ نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں کوئی کارروائی کرنے سے روک دیا۔ سابق امریکی سفارت کار اور ساٹھ کی دہائی میں جنوبی ایشیاء کے لیے امریکہ کے وزیر برائے جنوبی ایشیاء ڈینس ککس DENNIS KUX نے اپنی کتاب
THE UNITED STATES PAKISTAN RELATIONS 1947-2000 THE DISENCHANTED ALLIES میں لکھا ہے امریکہ اور برطانیہ نے 1962ء کی چین بھارت جنگ کے دوران اپنے سفارت کاروں کا ایک وفد پاکستان بھیجا تھا جس نے صدر ایوب خان کو یقین دہانی کرائی تھی۔ امریکہ اور برطانیہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بات چیت کے ذریعہ حل کرائیں گے۔ پاکستان کو اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی فوجی ایکشن لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ تنازعہ کشمیر کو مذاکرات سے حل کرانے کے لیے یہ ایک چکمہ تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بھارتی ہم منصب سردار سورن سنگھ کے درمیان بات چیت کرائی گئی۔ بھٹو اور بھارت کے ایک اور سینئر سفارت کار درگاپرشاددھر‘ ڈی پی دھر کے درمیان بھی کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات ہوتے رہے لیکن یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
پاکستان نے ان بے نتیجہ مذاکرات سے مایوس ہو کر ’’آپریشن جبرالٹر‘‘کا بھی تجربہ کیا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔1965ء میں کشمیر کے ایشو پر بھی بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اس حملہ کو پاکستان نے ناکام بنایا اور معاہدہ تاشقند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوئی گزشتہ پچاس برس میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان رسمی مذاکرات ہوتے رہے اور کبھی بیک چینل سفارت کاری کے ذریعہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ نوے کی دہائی میں پاک بھارت جامع مذاکرات COMPRSITE DIALOGUE بھی ہوتے رہے۔ لیکن بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی اور مکاری کی وجہ سے حالیہ مذاکرات کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا
اب بی جے پی کی حکومت نے نریندر مودی کی قیادت میں اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے اور آرٹیکل 370 اور35 اے کو ختم کرکے مقبوضہ علاقے کو بھارت کا حصہ بنا دیا ہے مقبوضہ کشمیر میں پچاس دن ہونے والے ہیں کہ 80 لاکھ سے زیادہ کشمیری کرفیو کی پابندیوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیریوں کا دنیا سے مواصلاتی نظام کے ذریعہ رابطہ بھی منقطع ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں حتی کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئیں کہ کشمیری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ یورپی یونین‘ امریکی کانگریس کے ارکان‘ دنیا بھر کا میڈیا بھی بھارت کی قابض انتظامیہ سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ کرفیو اٹھائے اور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق لوٹائے لیکن مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی بھارتی سپریم کورٹ نے بھی ایک صحافی کی پٹیشن پر مودی سرکار سے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہری آزادیاں بحال کرے لیکن مودی پر کوئی اثر نہیں ہورہا۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار فاروق حیدر نے درست کہا ہے کہ کشمیری عوام ہر روز صبح اس امید کے ساتھ جاگتے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کی مدد کے لیے پہنچ گئی ہوگی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کی طرف کوئی بھی نہ بڑھے۔ ممکن ہے کہ وزیراعظم کو امریکہ اور دوسری طاقتوں کے لیڈر یقین دہانی کروا رہے ہوں کہ وہ متنازعہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعہ حل کرا دیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح 1962ء کی چین بھارت جنگ کے دوران امریکہ برطانیہ اور مغربی ملکوں نے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں فوجی ایکشن سے روک دیا تھا اور کہا کہ وہ مذاکرات کے ذریعہ یہ مسئلہ حل کرا دئیں گے۔ پاکستانی اور کشمیری گزشتہ کم وبیش ساٹھ برس سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مدد کریں گی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کشمیر پر ثالثی کرانے کی پیشکش کرچکے ہیں ان کی اس پیشکش کے چند روز بعد مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا اٹوٹ انگ بنا دیا ۔ پاکستانی قوم اور کشمیریوں کو کب تک مذاکرات کے ذریعہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کا لالی پوپ دیا جاتا رہے گا؟ ہم کب تک دھوکے کھاتے رہیں گے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024