آج بھارتی سازشوں سے ہوشیار رہنے اور افغانستان کو شٹ اپ کال دینے کی ضرورت ہے
پاک افغان سرحد پر مہمند میں سرنگ دھماکہ سے پاک فوج کے میجر اور جوان کی شہادت
پاک افغان سرحد پر نصب بارودی سرنگ کے دھماکے میں گزشتہ روز پاک فوج کے ایک میجر اور ایک جوان شہید ہوگئے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا کہ دھماکے میں میجر عدیل شاہد اور سپاہی فراز حسین کی شہادت ہوئی ہے جو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کام کی نگرانی کررہے تھے۔ بارودی مواد کا دھماکہ پاک افغان سرحد پر مہمند ڈسٹرکٹ میں ہوا۔جس جگہ دھماکہ ہوا وہاں دہشت گردوں کی کراسنگ ہوتی تھی۔ میجر عدیل باڑ لگانے کے عمل کا جائزہ لینے والے سکواڈ کی قیادت کررہے تھے۔ وہ کراچی اور سپاہی فراز حسین کوٹلی کے رہنے والے تھے۔ سیاسی رہنمائوں نے دہشت گردی کی اس واردات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں پاک فوج کے دہشت گردی کیخلاف عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پوری قوم دہشت گردوں کیخلاف متحد ہے‘ فوج کی قربانیوں سے قوم سکون کی نیند سوتی ہے۔ ہر پاکستانی دہشت گردی کیخلاف سپنہ سپر اور اپنی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف نے مہمند دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میجر عدیل شاہد اور سپاہی فراز حسین مادر وطن کی عزت اور حفاظت پر قربان ہوگئے۔ ہمارے شہید قوم کے سر کی چادر ہیں‘ ان کا شوق شہادت اور جذبۂ ایمانی ہی ہماری اصل قوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی سرحد سے آنیوالی گولی ہمارے جسم پر نہیں‘ دل پر لگتی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ افغانستان پر باڑ لگانے کا اقدام روکنے والے دہشت گردوں کے کون سرپرست ہیں‘ ہمارے شہداء کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائینگے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری سکیورٹی فورسز نے انتھک جدوجہد‘ پیشہ ورانہ مشاقی اور اپنی جان و مال کی عظیم قربانیاں دیتے ہوئے اس وطن عزیز کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گزشتہ سات سال کے عرصہ کے دوران پاک فوج نے اپریشن راہ راست‘ اپریشن راہ نجات‘ اپریشن ضرب عضب‘ اپریشن خیبر فور‘ کومبنگ اپریشن اور متعدد ٹارگٹڈ اپریشنز کے تحت دہشت گردوں‘ انکے سہولت کاروں اور سرپرستوں کا پیچھا کیا اور انکی کمر توڑی‘ اب ملک میں دہشت گردی کی اکادکا وارداتیں بچے کھچے دہشت گرد مایوسی کے عالم میں راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کررہے ہیں جن کی سرکوبی کیلئے ہماری پرعزم سکیورٹی فورسز ہمہ وقت مستعد و چوکس رہتی ہیں جبکہ دہشت گرد بطور خاص ہماری سکیورٹی فورسز اور انکی تنصیبات و عمارات کو ٹارگٹ کرتے ہیں جس کا مقصد دہشت گردی کی جنگ میں انکے حوصلے پست کرنا ہے مگر ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے ایک نئے جذبے کے ساتھ کمرکس لیتی ہیں۔ چنانچہ آج ہماری سکیورٹی فورسز کی عظیم قربانیوں کے باعث ہی قوم سکون و اطمینان کی نیند سورہی ہے۔
اس وقت ملک کو جن اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج ہے جبکہ ملک میں ہمارے مکار دشمن بھارت کی گھنائونی سازشوں کے تحت ہی دہشت گردی کی نئی لہر اٹھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس دہشت گردی میں زیادہ تر افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے جہاں سے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی آسان رسائی مل جاتی ہے چنانچہ وہ ہماری سکیورٹی فورسز کے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں مصروف ہونے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دہشت گردی کی نذر کرنے اور اس پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے افغانستان کے اندر بھی دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں میں مصروف ہیں اور پاکستان کے اندر بھی داخل ہو کر بالخصوص ہماری سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گرد یہ ساری کارروائیاں بھارتی سرپرستی میں ہی کررہے ہیں۔ بھارت نے کابل انتظامیہ کی معاونت سے پہلے امریکہ طالبان مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے کابل میں امریکی سفارتخانہ کے باہر خودکش حملہ کرایا جس میں ایک امریکی فوجی سمیت دس افراد ہلاک ہوئے تو امریکی صدر ٹرمپ نے اسی کو جواز بنا کر افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہی بھارت اور افغانستان کے حکمرانوں کی خواہش تھی کیونکہ امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہونے اور انکے مابین امن معاہدہ ہونے سے بھارت اور کابل کے مفادات پر زد پڑتی تھی جنہیں افغانستان میں امن کی بحالی سوٹ ہی نہیں کرتی۔ بھارت درحقیقت اس خطہ میں تھانیداری چاہتا ہے جس کیلئے اسے واشنگٹن کا گرین سگنل بھی مل گیا تھا جبکہ پاکستان کی معاونت سے جاری امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی سے اس خطہ میں بھارت کا تھانیداری کا خواب بھی چکناچور ہوجاتا اور پھر اسکی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کو دہشت گردی سے دوچار کئے رکھنے کی سازش بھی ناکام ہو جاتی۔ اسی طرح افغان حکومت کو بھی افغانستان میں امن کی بحالی وارا نہیں کھاتی کیونکہ امریکی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی کے باعث ہی افغان حکومت کو اربوں ڈالر کی گرانٹ مل رہی ہے جو امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد بند ہوجائیگی اس لئے کابل حکومت واشنگٹن سے ہمیشہ یہی متقاضی رہی ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں موجود رکھی جائیں۔ یقیناً اسی بنیاد پر دہلی اور کابل کی ملی بھگت سے امریکہ طالبان امن مذاکرات ناکام بنانے کی سازش کی گئی جو کابل حملے کی بنیاد پر پایۂ تکمیل کو پہنچی۔
اسی طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد پاکستان کے ساتھ بھی سرحدی کشیدگی انتہاء کو پہنچائی جس کے نتیجہ میں بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی دبائو بڑھنا شروع ہوا اور پاکستان نے بھی اقوام عالم کو بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سے زچ ہو کر مودی سرکار نے وزیراعظم عمران خان کے یواین جنرل اسمبلی میں خطاب کو سبوتاژ کرنے کیلئے پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی نئی سازش تیار کی جس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کوئی واردات ڈال کر اس میں پاکستان کو ملوث کردیا جائے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان اور دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے اقوام عالم کو باور بھی کرایا جا چکا ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف ایسی چال چلنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ وزیراعظم عمران خان یقیناً جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے بھارتی عزائم بھی بے نقاب کرینگے چنانچہ وزیراعظم کی تقریر سے پہلے پہلے بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کا کوئی بھی ملبہ ڈالنا بعید ازقیاس نہیں۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ طالبان مذاکرات کا دروازہ بند کئے جانے کے بعد یہ خطہ دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں آگیا ہے اور افغان دھرتی پر اس وقت عملاً انسانی خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں۔ اگر امریکہ ڈرون حملے اور دوسرے فضائی حملے کرکے افغان دھرتی کو انسانی خون سے رنگین کررہا ہے اور اسی طرح طالبان نے دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھا دی ہیں تو ان ہر دو کارروائیوں میں افغان دھرتی پر مسلمانوں کا خون ہی بہہ رہا ہے۔ اسی طرح افغانستان کے اندر سے پاک افغان سرحد پر خیبر پی کے اور بلوچستان میں ہماری سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کرکے دہشت گردی کی وارداتیں کی جارہی ہیں جو افغان امن عمل کو مستقل طور پر سبوتاژ کرنے کی ہی سازش ہے۔ اس سازش میں کابل انتظامیہ برابر کی شریک ہے جو بھارت ہی کی طرح پاکستان کی سلامتی کو براہ راست چیلنج کررہی ہے۔ گزشتہ روز مہمند بارودی سرنگ کے دھماکے کی واردات بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کیلئے پاک افغان سرحد کھلی ہونے اور وہاں چیکنگ کا مؤِثر سسٹم نہ ہونے کے باعث ہی دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ کابل انتظامیہ اسی تناظر میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور گیٹ تعمیر کرنے کی مخالفت و مزاحمت کرتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے طورخم سرحد کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان کیا جو یقیناً پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی نیک نیتی کے تحت ہی کیا گیا مگر پاک افغان سرحد کو 24 گھنٹے کھلا رکھنا دہشت گردوں کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔
ہمیں اس خطہ میں بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی اور سنگین صورتحال کے پیش نظر بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے جس میں پاک افغان سرحد کی چیکنگ کا نظام انتہائی سخت کرنا اشد ضروری ہے تاکہ بھارت اور افغان حکومت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھانے کا کھلم کھلا موقع نہ مل سکے۔ آج پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کا منصوبہ جلد از جلد پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی اشد ضرورت ہے جبکہ گزشتہ روز کی دہشت گردی پر کابل انتظامیہ کو شٹ اپ کال دیکر اسے باور کرایا جائے کہ ہم کوئی چوڑیاں پہن کر نہیں بیٹھے ہوئے‘ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں اور اس کیلئے مکمل تیار ہیں۔